پیر 29 اپریل 2024

’تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا‘

’تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا‘

قیدیوں کی رہائی سے متعلق درخواست کی سماعت میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیےکہ کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں، صوبائی حکومتیں پیسے بانٹ دو اور راشن بانٹ دو کی باتیں کررہی ہیں اور وفاق کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو وہ کچھ کر ہی نہیں رہا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کل تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کورونا وائرس کے سلسلے میں کیے گئے عملی اقدامات پر مبنی جامع رپورٹ جمع کروانے کا حکم بھی دیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان مندوخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ نے ہائی کورٹس سے قیدیوں کی ضمانت کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ صرف قیدیوں کی رہائی کا نہیں بلکہ دیکھنا ہے کہ حکومت کورونا سے کس طرح نمٹ رہی ہے، صرف میٹنگ پر میٹنگ ہورہی ہے، زمین پر کچھ بھی کام نہیں ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں جہاں میں جا سکوں، وفاقی دارالحکومت میں تمام ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کردی گئیں ہیں، ملک میں صرف کورونا کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ مجھے اپنی اہلیہ کو چیک کروانے کے لیے ایک بہت بڑا ہسپتال کھلوانا پڑا، نجی کلینکس اور ہسپتال بھی بند پڑے ہیں یہ ملک میں کس طرح کی میڈیکل ایمرجنسی نافذ کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ایک ہسپتال اور کلینک لازمی کھلا رہنا چاہے، وزارت صحت نے خط لکھا کہ سپریم کورٹ کی ڈسپنسری بند کی جائے، کیوں بھائی یہ ڈسپنسری کیوں بند کی جائے، کیا اس طرح سے اس وبا سے نمٹا جارہا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو رپورٹ جمع کروائی ہے یہ اس بات کو واضح کررہی ہے کہ وفاق کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، وفاق کچھ کرہی نہیں رہا۔

جس پر اٹارنی جنرل خالد محمود خان نے بتایا کہ ایک رپورٹ آج بھی جمع کروائی ہے، وفاق بھرپور طریقے سے اقدامات کررہا ہے۔

چیف جسٹس نےایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا سے استفسار کیا کہ شیریں مزاری نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا ہے کہ پشاورہائی کورٹ نے 32سو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے؟

جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میرے خیال میں وزارت انسانی حقوق کو غلط فہمی ہوئی ہے، پشاور ہائی کورٹ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔

اٹارنی جنرل نے پیش کش کی وہ حکومتی اقدامات پر عدالت کو بریفنگ دینے کے لیے تیار ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کا ایکشن پلان دیکھا ہے بریفنگ میں کیا کریں گے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی کیا اہلیت اور قابلیت ہے، بس روزانہ کی بنیاد پر ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی پروجیکشن ہو رہی ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا وزارت دفاع سے کوئی عدالت میں آیا ہے،وزارت دفاع سے معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے وزارت دفاع سے کسی کو طلب نہیں کیا تھا البتہ وزارت دفاع کی جانب سے رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔

ہسپتالوں کی ضرورت پڑی تو بند کر دیے گئے، عوام کہاں جائیں؟ چیف جسٹس
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا عملی طور پر اقدامات نیشنل ڈزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی نے کرنا ہیں تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ این ڈی ایم اےکے ذمہ چیزوں کا حصول اور ان کی تقسیم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں کو پیسے لینے کا عادی بنا رہے ہیں، جیسے اسٹیل مل میں 15سال سے لوگ بغیر کام کیے تنخواہیں، مراعات اورترقیاں لے رہے، پی آئی اے بھی ایسے ہی چل رہا ہے، شپ یارڈ بھی ایک کشتی تک نہیں بنا رہا ہےلیکن تنخواہیں سب لے رہے ہیں،اب تو ایک چھوٹی سی کشی بھی درکارہو تو چین سے مدد لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، تمام ہسپتالوں کو فعال ہونا چاہیئے۔

‏چیف جسٹس نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے وفاقی، صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏گراؤنڈ پر کیا ہورہا ہے، کسی کو علم نہیں، کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں، شوگر اور امراض قلب کے مریض کہاں جائیں؟ عوام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومتیں پیسے بانٹ دو اور راشن بانٹ دو کی باتیں کررہی ہیں اور ٹی وی صبح سے شام تک لوگوں کو ڈرا رہا ہے اور لوگوں کو ہاتھ دھونے اور گھروں سے نہ نکلنے کا کہا جارہا ہے، تمام چیف منسٹر گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں، گراؤنڈ پر کچھ بھی نہیں۔

چیف جسٹس ‏نے کہا کہ صوبے کہہ رہے ہیں 10 ارب روپے دے دو، دستانے اور ماسک لینے ہیں، ‏سب کاروبار بند کردیے گئے، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، چیمبر میں آپ کیا بتائیں گے، ہمیں سب پتا ہے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کسی حکومت کے پاس طبی آلات کا سٹاک دو ہزار سے زیادہ نہیں، خیبرپختونخوا اور سندھ حکومتیں صرف پیسہ مانگ رہی ہیں کام نہیں کر رہیں اور وفاقی حکومت کے پاس ویسے ہی کچھ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہسپتالوں کی ضرورت پڑی تو بند کر دیے گئے، عوام کہاں جائیں؟ امراض قلب، ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کےمریض اب کہاں سے علاج کروائیں؟ اب تک ایک ہزار بستر کے 10 ہسپتال بن کر فعال ہوجائے چاہیئے تھے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو تمام ہسپتال فعال کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

چیس جسٹس نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں ایک کمرے میں 10،10 لوگ رہ رہے ہیں، دو کمروں کے گھروں میں دس دس لوگ رہتے ہیں، لوگ 3،4 دن شکلیں دیکھیں گے پھر ایک دوسرے کو ہی کھانے لگیں گے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کسی حکومت نے سڑکوں پر اسپرے نہیں کرایا، مختص کیے گئے اربوں روپے کہاں خرچ ہو رہے کچھ معلوم نہیں ساتھ ہی حکم دیا کہ کل تک عملی اقدامات پر مبنی جامع رپورٹ جمع کرائیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بات کا احساس ہے کہ کرونا سے سپر پاورز کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے صوبوں کے وزرائے اعلی گھر بیٹھ کر احکامات جاری کر رہے ہیں، عوام کے ٹیسٹ کرنے کے لیے صوبوں کے پاس کٹس ہی نہیں ہیں۔

خیبرپختونخوا میں 50 کروڑ روپے آپس میں بانٹ دیے گئے, چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خیبرپختونخوا میں جاری ہونے والے 50 کروڑ روپے آپس میں بانٹ دیے گئے، سب کا زور صرف مفت راشن تقسیم کرنے پر ہے، عوام کے کاروبار تو ویسے ہی بند کر دیے گئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لالو کھیت میں جس سڑک پر پولیس پر حملہ ہوا اس کا حال دیکھیں، سڑکوں پر دھول مٹی اور کچرا کسی بیماری سے کم نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل سے معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے اراکین اسمبلی میں پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے ڈر رہے ہیں اور یورپ اور امریکا نے اس دوران وبا سےنمٹنے کے لیے قانون بنا کر اس پر عملدرآمد بھی شروع کردیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کےحقوق کاتحفظ کریں گے، حکومت سمجھتی ہےکہ بنیادی حقوق اہم نہیں یہ سوچ غلط ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد محمود خان نے بتایا کہ پنجاب کی ایک جیل میں کورونا وائرس کا مریض سامنے آیا ہے۔

جسٹس قاضی امین احمد نے ریمارکس دیے کہ ہمیں عوام کی زندگی اور تحفظ کا احساس ہے، قانون میں راستہ موجودہے، جیل میں اگر متاثرہ شخص نہیں تو باقی قیدی محفوظ ہیں۔

جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیا کہ جیلوں میں کتنے ملازمین ہیں جو روزانہ باہر سے آتے ہیں، اگر جیل میں متاثرہ شخص نہیں آئے تو باقی قیدی کیسے متاثرہوں گے۔

جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ان حالات میں تحفظ کے لیے ایس او پیز بنانے ہوں گے، پولیس اور آرمی کی بیرک میں سیکڑوں لوگ رہتے ہیں، وہاں پر ایس اوپیز پر عمل کیا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیل کےحالات کا گھر سے موازنہ نہیں کرسکتے، توازن کے ساتھ قیدیوں کی رہائی ہونی چاہئے، قیدیوں کی رہائی کےحوالے سے اپنی تجاویز دے چکا ہوں۔

ہائی کورٹ کا حکم درست نہیں تو اسے چیلنج کیوں نہیں کیا؟چیف جسٹس
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سنگین جرائم کے قیدیوں کو رہا کرنا کس طرح درست ہے؟

اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہائی کورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا، تمام صنعتیں اور کاروبار بند پڑا ہے، عدالت عظمیٰ حکم دے گی تو سب تعمیل کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم سے معلوم نہیں کون کون سے قیدی باہر آگئے ہیں، سندھ حکومت نے قیدیوں کو چھوڑا تو بعد میں واپس کیسے لائیں گے؟ وزارت انسانی حقوق حکومت کے موقف سے ہٹ کر موقف نہیں اپنا سکتی۔

‏ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ کورونا وبا ہو یا نہ ہو، جس کی ضمانت بنتی ہے اسے ملنی چاہیے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ براہِ راست سپریم کورٹ سے کیوں کہا جا رہا ہے کہ قیدی چھوڑ دیں، کیا ماتحت عدالتیں ضمانتیں نہیں دے رہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب اور منشیات کے قیدیوں کو بھی چھوڑ دیا، جس پر عدالت میں موجودنیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ‏نیب کے کسی ملزم کی ضمانت پر رہائی نہیں ہوسکی، ‏حسین لوائی کو الگ حکم کے تحت ضمانت ملی۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آرٹیکل 187 کا استعمال کیا جبکہ آرٹیکل 187 کا اختیار صرف سپریم کورٹ استعمال کرسکتی ہے۔

‏جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کا حکم درست نہیں تو اسے چیلنج کیوں نہیں کیا؟ جسٹس قاضی امین نے دریافت کیا کہ کیا اسلام آباد انتظامیہ قانون پر سمجھوتا کرنا چاہتی ہے؟

‏ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ میں دائرہ اختیار کا سوال اٹھایا گیا تھا؟ ‏ہائی کورٹ میں مقدمے کا عنوان ریاست بنام ضلعی انتظامیہ تھا، ریاست کی جانب سے درخواست کس نے دی تھی؟

‏ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی رپورٹ عدالت نے پٹیشن میں تبدیل کی تھی۔

‏سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ رجسٹرار نے فون پر اسلام آباد کے قیدیوں کی تفصیل مانگی تھی ‏اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی تحریری خط یاحکم نہیں ملا تھا۔

‏ چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں گے آپ نے اس کیس میں کیسی معاونت کی، ہم اپنے آرڈر میں آپ کا ذکر بھی کریں گے۔

اپنی حکومت کو بتادیں کورونا پوری قوم کا مسئلہ ہے، چیف جسٹس
‏ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تفتان، چمن اور طورخم بارڈر پر قرنطینہ کیےگئے لوگوں کے لیے تمام حفاظتی اقدامات کریں، ان تینوں جگہوں پر عوام کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کریں۔

‏انہوں نے ریمارکس دیے کہ بارڈرز پر ہمارے پاس پارکنگ کی جگہ تک نہیں، بارڈرز پر بے ہنگم ٹرک کھڑے ہوتے ہیں، اٹارنی جنرل صاحب کبھی آپ نے چمن بارڈر دیکھا ہے؟ میں نے دیکھا ہے کہ وہاں کیا کیا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏اٹارنی جنرل صاحب ان تینوں بارڈرز پر لوگوں کی سہولیات پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتے۔

‏ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پہلا کورونا پازیٹو قیدی جو سامنے آیاتھا اس کا494 لوگوں سے رابطہ ہوا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کی رپورٹ میں نے پڑھی ہے۔

‏انہوں نے استفسار کیا کہ ٹیلی فون پر انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت کی ہدایات کیسے دی جاسکتی ہیں؟ جن کی ضمانت خارج ہوچکی تھی فون پر ان کو بھی ضمانت مل گئی۔

‏چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ صاحب آپ کا حال بھی ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‏ملکوں میں فیصلے لکھے ہوئے آئین کے مطابق کیے جاتے ہیں، عدالتوں کا کام بھی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے، ‏عدالتیں قانون اور حقائق سے ہٹ کر فیصلے نہیں کرسکتیں، انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانتوں میں قانون اورحقائق کو نظرانداز کیا گیا، فون پر زبانی ضمانتیں ہوں گی تو جسے دل چاہے گا اسے چھوڑ دیں گے۔

‏ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ تفتان، چمن اور طورخم پر2 ہفتوں میں قرنطینہ بنائیں، ہر آدمی کے لیے ایک کمرہ، علیحدہ باتھ روم اور بہترین خوراک مہیا کی جائے۔

‏ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ ہوا اور کہا کہ اپنی حکومت کو بتادیں کورونا پوری قوم کا مسئلہ ہے کسی ایک پارٹی کا نہیں، حکومت ‏پارلیمنٹ کے ذریعے معاملات حل کرے، حکومت کو عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

‏ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ادویات تک باہر سے منگواتے ہیں، سب کچھ خود پیدا کرنا ہوگا، کھانے اور اناج کا بھی خود بندوبست کریں۔

‏بعدازاں سپریم کورٹ نے انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی اور کہا کہ آج کی سماعت کا حکم نامہ کل لکھوائیں گے۔

قیدیوں کی رہائی کا معاملہ
خیال رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث اڈیالہ جیل میں موجود معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی جیل کے قیدیوں میں وائرس پھیل گیا تو بہت مشکلات ہو جائیں گی، ابھی تک صرف چین ہی اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور چین میں بھی 2 جیلوں میں وائرس پھیلنے کے بعد معاملات خراب ہوئے

بعدازاں 24 مارچ کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر 408 قیدیوں کی ضمانت پر مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ چیف کمشنر، آئی جی پولیس اور ڈی جی اے این ایف مجاز افسر مقرر کریں اور تمام مجاز افسران پر مشتمل کمیٹی کے مطمئن ہونے پر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس ملزم کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ باہر نکل کر معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، اسے ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ احکامات کے بعد سید نایاب حسن گردیزی نے راجہ محمد ندیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکوٹ (آئی ایچ سی) کے دائرہ اختیار میں ازخود نوٹس شامل ہے؟

اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم اختیارات کے منافی ہے کیونکہ یہ خالصتاً ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے تناظر میں زیر سماعت قیدیوں کے معاملے پر نظر ثانی کرے۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق پٹیشن پر سماعت کرنے کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا کہ جس کے تحت ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو زیر سماعت قیدیوں (یو ٹی پی) کو ضمانت دے دی تھی۔

جس کے بعد 30 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے تمام ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ سمیت متعلقہ حکام کو یکم اپریل تک نوول کورونا وائرس کے باعث زیر سماعت قیدیوں کی جیلوں سے رہائی یا اس سلسلے میں کوئی بھی حکم دینے سے روک دیا تھا۔

بعدازاں یکم اپریل کو اس کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے صوبائی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے تمام نئے قیدیوں کی اسکرینگ کرنا لازمی قرار دیا تھا۔ ‏

Facebook Comments