جرمن پارلیمانی انتخابات: کیا تارکین وطن ووٹروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے؟
جرمنی میں اس بار پارلیمانی انتخابات میں رائے دہی کا حق رکھنے والے ایسے شہری جن کی جڑیں غیر ملکوں میں ہیں، کی کُل تعداد لگ بھگ 7.4 ملین ہے جبکہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے جرمنی میں رہائش پذیر لاکھوں دیگر باشندوں کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہے۔ ان دونوں گروپوں کو جرمنی کی سیاسی جماعتیں اکثر و بیشتر نظر انداز کرتی ہیں۔
جرمنی میں 26 ستمبر کو پارلمیانی اانتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ ان عام انتخابات میں 60 ملین سے زائد شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔ تاہم جرمن شہریت رکھنے والوں کا ایک گروپ ایسا ہے جنہیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس گروپ میں تارکین وطن گھرانوں کے پس منظر رکھنے والے شہری شامل ہیں۔ خاص طور سے جو ترکی، شام یا سابقہ سوویت یونین کا پس منظر رکھتے ہیں۔ اس گروپ سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی تعداد 7.4 ملین کے قریب ہے جو ووٹرز کی کُل تعداد کا 12 فیصد بنتی ہے۔جرمنی سن 2015 کی مہاجرین کی پالیسی نہیں دہرائے گا، سی ڈی یو
سماجی امور کی ایک ماہر سابرینا مائیر کا کہنا ہے کہ ووٹروں کے اس گروپ کو سیاستدانوں کی طرف سے شاذ و نادر ہی مخاطب کیا جاتا ہے۔ وہ جرمنی کی مغربی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا جو آبادی کے اعتبار سے جرمنی کی سب سے بڑی اور ایک کثیر الثقافتی ریاست مانی جاتی ہے کے شہر ڈوئسبرگ میں تارکین وطن پس منظر والے افراد کے بارے میں ایک مطالعے پر کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس شہر میں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ تارکین وطن گھرانوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے موضوع کو انتخابی مہم میں شاذ و نادر ہی شامل رکھا گیا اور انہیں پوسٹرز وغیرہ پر بمشکل دکھایا گیا
الیکشن میں تارکین وطن پس منظر رکھنے والے باشندوں کا ووٹرز ٹرن آؤٹ کم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ 2017 ء کے پارلیمانی انتخابات میں ان افراد کے ٹرن آؤٹ کی شرح اوسط سے 20 فیصد کم تھی۔ سابرینا مائیر کا کہنا ہے کہ یہ رجحان ایک ‘شیطانی چکر‘ بن سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”اگر کوئی گروپ سیاستدانوں کی طرف سے خود کو نظر انداز ہوتا محسوس کرے تو یہ ووٹ بھی کم ڈالتا ہے اور ان کے مسائل پر بات چیت کے امکانات بھی محدود ہوتے جاتے ہیں نتیجتاً ووٹرز ٹرن آؤٹ کی شرح میں مسلسل گراوٹ پیدا ہوتی جاتی ہے۔‘‘ جرمنی میں عام انتخابات کتنے محفوظ ہیں؟
علی چن ترک نژاد جرمن نوجوان سماجی کارکن ہے۔ اسے اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ تارکین وطن ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دلانا کتنا مشکل کام ہے۔ علی چن نے ٹوئٹر پر #MeTwo کی مہم کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد امتیازی سلوک کی طرف توجہ مبذول کروانا تھا۔ ترک نژاد علی چن ترکی میں پیدا ہوا تھا اور 1995ء میں اپنی فیملی کیساتھ ترکی سے فرار ہو کر جرمنی آ گیا تھا۔ علی جرمنی کے عام انتخابات میں تارکین وطن پس منظر کے حامل جرمن شہریوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت چاہتا ہے اور ان کے ووٹرز ٹرن آؤٹ کی شرح میں اضافے کی کوشش میں مصروف ہے۔ علی چن نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”21 ویں صدی میں ووٹ کے حصول کے لیے مدد لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ لیکن ووٹنگ کے طریقہ کار اور امیدواروں کے بارے میں معلومات فراہوم کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کے لیے ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کے جذبات کو اپیل کرے۔ علی چن کے بقول، ”ہم ہجرت کے پس منظر والے شہریوں کو یہ تاثر دینے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ بھی جرمنی سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ جرمنی: حکام نے کمیونسٹ پارٹیوں کو عام انتخابات سے باہر کر دیا
سائنسی اعداد وشمار
جرمنی میں اس بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں کہ اس ملک میں تارکین وطن پس منظر والے یا کون سے مہاجر گروپ کس پارٹی کو اور کس وجہ سے ووٹ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں خاص گروپ کو ہدف بنا کر مطالعات کی ضرورت ہے مگر ان سائنسی مطالعات پر بہت خرچہ آتا ہے اور اکثر ان میں صرف مہاجرت اختیار کرنے والے بڑے گروپوں کو شامل کیا جاتا ہے۔
ایک جرمن پولیٹیکل فاؤنڈیشن ” کونراڈ آڈیناور اشٹفٹُنگ‘‘ KAS کا تعلق چانسلر میرکل کی پارٹی کرسچن ڈیمو کریٹک یونین سی ڈی یو سے ہے جو جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کی اپنی ہم خیال سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین سی ایس یو کے ساتھ مل کر اقتدار میں ہے۔ KAS نے 2015 ء اور 2019 ء میں اس طرح کے دو مطالعے کروائے جن میں توجہ تارکین وطن کے پس منظر والے شہریوں کے تین بڑے گروپوں پر مرکوز رکھی گئی۔ ایک گروپ میں ترک نژاد باشندے شامل ہیں جن کی تعداد 2.8 ملین ہے، دوسرے گروپ میں پولستانی تارکین وطن شامل ہیں جن کی تعداد 2.2 ملین ہے جبکہ تیسرا گروپ روسی نژاد باشندوں کا ہے جس کی تعداد 1.4 ملین ہے۔
ووٹرز کے رجحان میں تبدیلی
ان میں سے ایک مطالعے کے مطابق تین میں سے دو گروپوں کے نتائج طویل عرصے تک تقریباﹰ یکساں ہی رہے: ”روس سے نسبتاﹰ حالیہ عرصے کے دوران جرمنی آنے والے ووٹرز کی اوسط سے زیادہ تعداد نے سی ڈی یو اور سی ایس یو کو ووٹ دیے جبکہ ترک پس منظر رکھنے والوں نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یا ایس پی ڈی کو۔‘‘ تاہم حالیہ چند برسوں میں اس طے شدہ رحجان میں تبدیلی آ رہی ہے۔
مطالعات سے پتا چلا ہے کہ ایسے روسی نژاد باشندے جو ماضی میں سی ڈی یو اور سی ایس یو کو ووٹ دیا کرتے تھے اب ان کا رجحان دائیں بازو کی ‘آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ یا اے ایف ڈی کی طرف ہو گیا ہے۔ جبکہ ترک نژاد ووٹرز اعتدال پسند بائیں بازو کی جماعت ایس پی ڈی کو ووٹ دیا کرتے تھے وہ اب زیادہ تر کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو اور کرسچن سوشل یونین سی ایس یو کو ووٹ دے رہے ہیں۔ اُدھر پولش کمیونٹی کے رجحان میں تبدیلی کا فائدہ ماحول پسند گرین پارٹی کو ہوا۔
Facebook Comments