جمعرات 28 مارچ 2024

اوآئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کب ہو گا؟؟

وفاقی وزیر برائے امورِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ 19 دسمبر کو اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں امریکا کے مندوب خصوصی برائے افغانستان ٹام ویسٹ بھی شرکت کریں گے جو بڑی مثبت پیش رفت ہے۔

اسلام آباد میں ملکی و غیر ملکی میڈیا نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ اس قسم کا غیر معمولی اجلاس 41 سال بعد ہورہا ہے، افغانستان اور پاکستان کا امن باہم منسلک ہے جس سے ہماری زمینی مواصلات اور تجارتی روابط کو فروغ ملے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں تاریخ بن رہی ہے اور ہم سب اس انسانی المیے کے مشترکہ ذمہ دار ہوں گے، افغانستان میں 10 لاکھ بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں، برائے مہربانی انہیں چھوڑیں نہیں، کسی مخصوص گروہ کے بارے میں نہیں بلکہ افغانستان کے بارے میں سوچیں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر انسانی بحران کو نہیں روکا گیا تو ملک معاشی طور پر تباہ ہوجائے گا اور اگر توجہ نہ دی گئی تو بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے گا، کیوں کہ افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی باقیات اور مفادات ہیں جو دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو ہمیں نئے انخلا کی تیاری کرنی ہوگی جس سے پاکستان، سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور یورپی یونین کی ریاستیں بری طرح متاثر ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان سے لوگوں کا نیا انخلا ہوا تو یہ معاشی ہجرت ہوگی اور وہ خطے سے باہر جائیں گے، آپ انہیں کس طرح قابو اور چیک کریں گے، مہربانی کر کے اپنا کردار ادا کریں۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان، افغانوں کی مدد کرنے میں بحیثیت ایک ذمہ دار ملک اپنا کردار ادا کررہا ہے۔

افغانستان کی مدد کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے خطے کے 6 ممالک پر مشتمل ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے جس کا پہلا ورچوئل اجلاس اسلام آباد میں، دوسرا ایران میں ہوا جبکہ تیسرا بیجنگ میں ہوگا۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بجٹ کی 75 فیصد ضروریات بینکنگ چینلز کے ذریعے غیر ملکی امداد سے پوری ہوتی تھی لیکن اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے ہیں، افغانستان کی خواتین اور بچے کیوں مشکل اٹھائیں۔

مزید پڑھیں:افغانستان سے رابطہ ختم کرنا دنیا کیلئے ‘خطرناک’ ہوگا، وزیراعظم عمران خان

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اشرف غنی حکومت کی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جاسکتا، عالمی برداری اپنے نقطہ نظر پر نظرِ ثانی کرے اور اس مشکل حالات میں افغانستان کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائیکا پلس میں شامل جرمنی، جاپان، اٹلی، آسٹریلیا کے مندوب خصوصی برائے افغانستان بھی خصوصی دعوت پر او آئی سی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ عالمی برادری افغانستان میں لڑکیوں کے اسکولز کھولنے کا مطالبہ کررہی ہے لیکن مجھے ان سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ افغان حکومت اسکولز کھولنے کے لیے تیار ہے لیکن ان کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہا کہ او آئی سی کے رکن ممالک کی جانب سے افغانستان کے لیے مالی امداد کی توقع ہے جبکہ برطانیہ کے ڈزاسٹر فنڈ نے افغانوں کے لیے عطیات دینے شروع کردیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں بہت سے وزرائے خارجہ شرکت کررہے ہیں جبکہ کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکا نے بھی اپنے مندوبِ خصوصی برائے افغانستان ٹام ویسٹ کو بھیجا ہے جبکہ افغان وزیر خارجہ امیر متقی بھی وفد کے ہمراہ کانفرنس میں افغانستان کی نمائندگی کریں گے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک میں رہنے والے بہت سے متمول افغان شہری اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن بینکنگ ذرائع کام نہیں کررہے لہٰذا بینکنگ چینلز کی بحالی فوری ضروری ہے۔
اجلاس میں شرکت کیلئے وفود کی آمد

سعودی عرب کا وفد اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی کونسل برائے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچ گیا۔

19 دسمبر سے شروع ہونے والا اجلاس افغانستان کی صورتحال پر ہورہا ہے جس کی تجویز سعودی عرب نے پیش کی تھی جبکہ پاکستان نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی تھی۔

سعودی عرب کے شعبہ افغان امور کے سربراہ شہزادہ عبداللہ بن خالد بن سعود الکبیر اور شہزادہ جلوی بن ترکی پر مشتمل وفد جمعہ کی صبح اسلام آباد پہنچا، جن کا استقبال پاکستان میں سعودی سفیر اور دفتر خارجہ کے سینیئر عہدیداروں نے کیا۔

اس کے علاوہ دفتر خارجہ نے اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر ڈاکٹر محمد بن سلیمان الجسیر کا بھی خیر مقدم کیا۔

اجلاس میں شرکت کے لیے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین بن ابراہیم جمعرات کی راست اسلام آباد پہنچے تھے، ان کا استقبال وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے کیا تھا۔

Facebook Comments