جمعرات 25 اپریل 2024

گریویان۔۔۔۔ ایک سائنس فکشن کہانی

گریویان۔۔۔۔ ایک سائنس فکشن کہانی

تحریر: ندیم رزاق کھوہارا

 

ہال میں قطار اندر قطار لگی کرسیوں پر براجمان لوگ  سامنے موجود اسکرینوں پر نظریں جمائے انہماک سے کام کر رہے تھے۔ کوئی بھی آپس میں بات نہیں کر رہا تھا لیکن کی بورڈ کی ٹک ٹک پورے ہال میں گونج رہی تھی۔ ہال کے ایک جانب کئی میٹر بلند دیوار پر جناتی اسکرین نصب تھی۔ جس پر خلاء کا کوئی منظر واضح نظر آ رہا تھا۔ یہ سپارکو کے زمینی مرکز کا ہال تھا جہاں سے ایک خلائی مشن کو کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ 

وسط دسمبر کی سیاہ رات کے تقریباً بارہ بجنے والے تھے لیکن ہال کی چھت اور دیواروں پر لگی سینکڑوں ایل۔ای۔ڈی روشنیوں اور دیوار پر لگی اسکرین کے باعث اتنی روشنی تھی کہ دن کے بارہ بجے کا گمان ہوتا تھا۔ 

جوں ہی ہال میں موجود ایک ستون پر لگی گھڑی کی سوئیوں نے بارہ بجائے تو ایک دم سے پورے ہال میں اندھیرا چھا گیا۔ جہاں دن کی روشنی کا سماں تھا وہاں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہاں موجود ہر شخص کی بینائی جا چکی ہے۔ اسکرینوں پر نگاہیں جمائے کام کرنے والے ملازمین اپنی آنکھوں کو مَل رہے تھے اور اس وہم کا شکار ہو گئے تھے کہ کہیں واقعی نابینا تو نہیں ہو گئے۔ ایسے میں ہال میں کرنل طارق کی آواز گونجی۔۔۔۔
"کوئی سن رہا ہے؟ بیک اپ لائٹ جلاؤ۔ جنریٹر آن کیوں نہیں ہوا ابھی تک۔۔۔ عاصم سن رہے ہو؟ ایمرجنسی لائٹ آن کرو۔ کیا ہو گیا ہے سب کو؟؟؟"

طارق کی رعب دار آواز کی گونج ہال میں کئی سیکنڈ تک گونجتی رہی۔ جسے سن کر ملازمین نے سکون کا سانس لیا کہ وہ نابینا نہیں ہوئے۔ شاید بجلی کنکشن میں کوئی مسئلہ آ گیا تھا۔ لیکن ابھی تک بیک اپ لائٹ کیوں نہیں آن ہوئی؟ جنریٹر بھی خاموش تھا۔

ہال میں دبی دبی سی آوازیں آنے لگیں۔ ان میں کہیں ہلکی سی "کلک کلک" کی آواز بھی تھی۔ یہ عاصم تھا جس کے پاس تیز ایمرجنسی لائٹ ہر وقت جیب میں موجود رہتی تھی۔ یہ لائٹ دیکھنے میں بہت چھوٹی اور باآسانی ہاتھ میں سما جانے والی تھی۔ لیکن اس سے نکلنے والی روشنی اتنی طاقتور تھی کہ وسیع و عریض ہال کو روشن کرنے کے لیے کافی تھی۔ ضرورت پڑنے پر سرچ لائٹ کا کام بھی دیتی تھی۔ لیکن اس وقت نہ جانے کیوں بار بار بٹن دبانے کے باوجود آن نہیں ہو رہی تھی۔ 

ہال میں اندھیرا تھا۔ گہرا گھپ خوفناک اندھیرا۔۔۔۔۔ کوئی بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا تھا۔ یکایک اسکرینین آن ہوئیں۔ روشنیاں اب بھی بند تھیں۔ لیکن ہر میز پر پڑی کمپیوٹر اسکرین اور دیوار پر لگی بڑی اسکرین آن تھی۔ مدھم سی روشنی ہال میں پھیلی تو وہاں موجود کام کرنے والوں کو ایک دوسرے کے خدو خال نظر آنے لگے۔ ہر اسکرین پر ایک پٹی کی صورت الفاظ ظاہر ہونے لگے۔ یہ الفاظ صرف ایک پٹی کی صورت تھے لیکن جس کی جو مادری زبان تھی وہ اسی زبان میں ان کو پڑھ رہا تھا۔ ہال میں کام کرنے والوں کی اکثریت انگریزی جانتی تھی۔ لیکن فرانس سے آ کر کام کرنے والوں کو یہ الفاظ فرانسیسی میں، عرب والوں کو عربی میں، اور اردو بولنے والوں کو اردو میں دکھائی دے رہے تھے۔ 

"زمین کے باسیو۔۔۔۔ وقت آگیا ہے کہ تم سے رابطہ کیا جائے۔ میں جو ہوں اسے تم سمجھ نہیں پاؤ گے۔ لیکن اتنا جان لو کہ میں تمہارا بدخواہ نہیں ہوں۔ کائنات کو کھوجنے کے جس سفر پر تم نکلے ہو اس میں اب اپنے اندر موجود کائنات کو سمجھنے کے قریب پہنچ چکے ہو۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے آگے ایک بہت بڑا خطرہ تمہیں درپیش ہے۔ ایسا خطرہ جس کے لیے اگر تم تیار نہ ہوئے تو تمہاری پوری نوع اور یہ زمین ختم ہو جائے گی۔ اس لیے فوری طور پر ساری کھوج بند کر دو۔ کائنات کو کھنگالنے اور اپنی ذات کو سمجھنے کا کام ختم کر دو۔ ایک ہو جاؤ۔ میں جلد ہی تم سے ایک بار پھر رابطہ کروں گا۔ اور بتاؤں گا کہ وہ خطرہ کیا ہے تیار رہو۔۔۔۔۔۔۔ 
"گریویان" 
"

آخری لفظ کے ساتھ ہی پورا ہال روشنیوں سے نہا گیا۔ سب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ روشنی اتنی تیز تھی کہ دوسرے فلور کی ریلنگ کے ساتھ کھڑے اسکرین پر نظریں جمائے کرنل طارق کے ماتھے پر چمکتے پسینے کے قطرے صاف دیکھے جا سکتے تھے۔ حدت اتنی بڑھ گئی تھی کہ ملازمین نے اپنے کوٹ، جیکٹیں اتارنا شروع کر دی تھیں۔ 

یہ منظر صرف سپارکو کے اس ہال میں ہی نہیں بلکہ ہزاروں کلومیٹر دور امریکہ کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں موجود ناسا ہیڈ کوارٹر، جنیوا میں قائم سرن ہیڈکوارٹر، ماسکو میں موجود روسکوسموس، اور بیجنگ کے سی۔این۔ایس۔اے سمیت دنیا بھر کے خلائی تحقیقاتی مراکز اور ایسے مقامات پر بہ یک وقت پیش آیا جہاں خلاء پر نظر رکھی جا رہی تھی یا اس کے متعلق تحقیق کی جا رہی تھی۔ سب نے اپنے اپنے سامنے موجود اسکرینوں پر اپنی اپنی زبان میں یہ پیغام پڑھا۔ گریویان وہ لفظ تھا جو ہر کسی کے دماغ میں گونج رہا تھا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے تین بجے غازی روڈ لاہور کے نواح میں واقع ایک بنگلے میں ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز گونجی۔ کریڈل اٹھانے پر فون کرنے والے کو نیند میں ڈوبی نسوانی ہیلو سنائی دی۔
"سبزپوش" کہاں ہے اس سے میری بات کرواؤ۔"

"وہ سو رہے ہیں"
فون کرنے والے کے تحکمانہ لہجے سے متاثر ہوئے بغیر جواب دیا گیا۔
"میری ابھی اور اسی وقت بات کرواؤ۔ اٹس این ارجنٹ۔ فوری"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوہ پھٹنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ بنگلے سے ایک جدید سیاہ رنگ کی کار نکلی۔ اس کا رخ ملتان روڈ کی جانب تھا۔۔۔۔۔

(جاری ہے)
آگے کیا ہوا۔ جانئے دوسری قسط میں۔۔۔۔

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11