جمعرات 28 مارچ 2024

لیبیا کی حکومت سے ترک، قطری، جرمن وزرا کے مذاکرات

لیبیا کی حکومت سے ترک، قطری، جرمن وزرا کے مذاکرات

ترکی اور قطر کے وزرائے دفاع نے لیبیا کے دورے میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) کو مکمل تعاون کا یقین دلایا جبکہ جرمنی کے وزیر دفاع نے بھی اچانک دورہ کیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طرابلس میں ترک وزیر دفاع ہلوسی آکار نے کہا کہ ‘ہمیں یقین ہے کہ ہم اپنے لیبیا کے بھائیوں کی ان کے مقصد کے لیے مدد کرکے اپنی توقعات کے مطابق نتائج حاصل کریں گے’۔

خیال رہے کہ لیبیا میں جی این اے کی حکومت کے خلاف خلیفہ حفتر کی فورسز نے پیش قدمی کرتے ہوئے طرابلس کا محاصرہ کیا تھا لیکن ترک فورسز کی مدد سے حکومت نے اپنے علاقے واپس حاصل کر لیے ہیں۔

لیبیا میں 2014 سے مشرقی اور مغربی علاقے کی بنیاد پر تقسیم ہے اور خطے کے ممالک سمیت عالمی قوتیں بھی دونوں گروپوں میں تقسیم ہیں۔

ترکی اور قطر جی این اے کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات، مصر اور روس کمانڈر خلیفہ حفتر کی طرف ہیں اور ان کی مدد کر رہے ہیں۔

لیبیا کی تسلیم شدہ حکومت اور ترکی کے درمیان تعاون کا معاہدہ گزشتہ برس ہوا تھا۔

ترک وزارت دفاع کے بیان کے مطابق وزیر دفاع ہلوسی آکار اور چیف آف اسٹاف جنرل یاسر گلیر لیبیا سے ہوئے معاہدے کے مطابق ہونے والی کارروائیوں کا جائزہ لینے طرابلس میں ہیں۔

روس اور ترکی بڑی طاقتیں ہیں جو لیبیا میں ایک دوسرے کے مخالف سمت کھڑی ہیں لیکن دونوں ممالک نے امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کردی ہیں۔

بیان کے مطابق دونوں ممالک کے سربراہان نے لیبیا کے حوالے سے ٹیلی فون پر بات کی۔

ادھر جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس بھی غیر متوقع طور پر طرابلس پہنچ گئے اور لیبیا کے ہم منصب سے ملاقات کی۔

 برلن سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ہیکو ماس نے ترکی اور قطر کے وزرا سےملاقات نہیں کی اور زور دیا کہ علاقے میں تنازع کو ختم کرکے امن قائم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔

جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘لیبیا میں اس وقت امن کو ہم فریب کے طور پر دیکھ رہے ہیں، دونوں فریقین اور ان کے عالمی اتحادیوں کی جانب سے اسلحے کی بڑے پیمانے پر فراہمی ہو رہی ہے’۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین براہ راست مذاکرات شروع کریں اور خانہ جنگی کو ختم کریں۔

ہیکو ماس نے مطالبہ کیا کہ تیل کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو بھی ہٹادیا جائے اور جنگ زدہ ملک میں تیل کی دولت کو مساوی تقسیم کیا جائے۔

لیبیا کے وزیر خارجہ محمد طاہر سیالا کا کہنا تھا کہ انہیں تنازع کے حل کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت نہیں ہے لیکن جمہوی انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے آئین کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یورپی یونین مشن کی جانب سے اقوام متحدہ کے 2011 کے اسلحے کی پابندی کے تحت کارروائی ایرینی آپریشن کو مسترد کرتے ہیں۔

محمد طاہر سیالا کا کہنا تھا کہ یہ مشن جارحیت پسندوں کو ملنے والے اسلحے اور دیگر تعاون کی نگرانی نہیں کر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جرمن وزیر خارجہ لیبیا سے متحدہ عرب امارات جائیں گے اور کمانڈر خلیفہ حفتر کو برلن سربراہی کانفرنس کی روشنی میں منانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے آمادہ کریں گے۔

 یاد رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے خلاف 2011 میں نیٹو اتحاد کی حمایت سے کارروائی شروع کی گئی تھی اور انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا لیکن ملک میں انتشار کی فضا میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم ‘عرب بہار’ کے دوران ختم کر دیا گیا تھا۔

معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔

جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل تھا۔

Facebook Comments