جمعہ 19 اپریل 2024

موٹروے واقعے کا تیسرا رخ “مٹی پاؤ یا کَم پاؤ”

موٹروے واقعے کا تیسرا رخ “مٹی پاؤ یا کَم پاؤ”
موٹروے واقعے کا تیسرا رخ، پانچ سنجیدہ سوال

تحریر: عامرچوہدری

ہم انسان جس دنیا میں رہ رہے ہیں اسے سہ جہتی دنیا قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی یہاں ہر شے کا سہ جہتی منظر ہے۔ لمبائی، چوڑائی اور گہرائی۔۔۔۔ ان تینوں کو ماپ کر ہی کسی بھی شے کے درست مقام اور ہیئت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
 بعینہٖ ہر واقعے کے بھی تین مختلف پہلو یا رخ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو آپ کو دکھائی دیتا ہے یا یوں کہیے دکھایا جاتا ہے۔ دوسرا وہ جو قدرے اوجھل ہوتا ہے لیکن شاطر دماغ لوگ اس کی گہرائی تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ اور تیسرا وہ جو آپ کی نظروں سے تو کیا سوچ سے بھی اوجھل ہوتا ہے۔ لیکن حقیقتاً یہی وہ رخ ہوتا ہے جس کو دیکھے بغیر آپ کبھی بھی واقعے یا معاملے کی اصل حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی شے کی محض لمبائی یا چوڑائی کو دیکھ کر اس کی گہرائی کا اندازہ ہرگز نہیں لگایا جا سکتا۔ 
مضمون کے اصل مدعے پر آتے ہیں۔ حال ہی میں پیش آنے والے موٹروے زیادتی کیس کے بھی اسی طرح تین رخ ہیں۔ ایک وہ جو پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر چیختے چنگھاڑتے اینکرز اور حکومتی و اپوزیشن نمائندگان آپ کو دکھا رہے ہیں یا دکھانا چاہتے ہیں۔ دوسرا وہ رخ ہے جس کے بارے میں بہکی بہکی سی باتیں آپ نے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے قلم سے لکھی ضرور پڑھی یا دیکھی ہوں گی۔ مثلاً یہ واقعہ سی سی پی او کو ہٹانے کی یا پنجاب حکومت کو دباؤ میں لانے کی سازش ہے وغیرہ وغیرہ 
اب ذرا تیسرے پہلو پر نظر ڈالتے ہیں۔ گو کہ کہانی میں بے شمار جھول ہیں جن پر لاجواب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ خاتون جدید گاڑی کی حامل تھیں۔ تو کیا انہیں میٹر گیج سے اندازہ نہیں ہوا کہ پٹرول کم ہے؟ خاوند کے بیان اور موقع پر مدد کو پہنچنے والوں کے بیانات میں اتنا تضاد کیوں ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
لیکن قارئین یہاں میں ان سوالات سے بالکل ہٹ کر پانچ مختلف سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ان سوالوں کے جواب تلاش کر لیجیے آپ کو پورا منظرنامہ معلوم ہو جائے گا۔ معاملے کا تیسرا پہلو خودبخود سامنے آ جائے گا۔
 پانچ سوال یہ ہیں۔ 
1۔ کیا اس سے پہلے پاکستان میں ریپ کے واقعات نہیں ہوتے؟ کیا اس سے بھی سنگین نوعیت کے افسوسناک واقعات پولیس تھانوں میں رپورٹ نہیں ہیں؟ اگر ہاں تو پھر اس واقعے کی ٹائمنگ اور اس پر مچائی جانے والی ہاہاکار میں کیا خاص تعلق ہے؟
2۔ فرض کیجیے اس واقعے پر آج سے ملک کے تمام ٹی وی چینلز بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی بڑی شخصیات اس پر کچھ نہیں لکھتیں تو کیا اگلے دو تین دن بعد اس واقعے کی اہمیت وہ ہو گی جو آج ہے؟
3۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت خود بھی جان بوجھ کر معاملے کو پچیدہ سے پچیدہ بنائے چلے جاتی ہے۔ ملزم ڈی این اے میچ کر گیا، نہیں کیا، ملزم گرفتار، نہیں گرفتار، ساتھی گرفتار، خود پیش، ماں کا بیان فلاں کا بیان۔۔۔۔۔ آپ پچھلے دنوں کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیجیے حکومتی موقف میں جان بوجھ کر پیدا کیا گیا تضاد آپ کو صاف نظر آئے گا۔ آخر کیوں؟
4۔ یوں تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے ہر کوئی آ جاتا ہے۔ اس وقت بھی اپوزیشن سے لے کر حکومت تک، سب اس واقعے سے اپنا اپنا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس سارے قضیے میں آخر کس کو سب سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے؟
5۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ابھی اس واقعے کی گرد بھی تھمنے نہ پائے گی اور کوئی نہ کوئی نیا واقعہ وقوع پذیر ہو جائے گا۔ ہم سب بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے؟ نکلے گا وہی کچھ جو نواز شریف کے پلیٹ لیٹس، مشرف کی پھانسی، کرنل کے استعفے اور پاپا جونز کے پِزے سے نکلا؟
دوستو! یہ پانچ سوال نہیں بلکہ پانچ تجزیے ہیں۔ ان کے اندر ہی جواب بھی چھپے ہیں۔ آخر میں مختصراً یہی کہوں گا کہ اب یہاں ٹرینڈنگ ٹاپک بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ ان ٹاپکس کی آڑ میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں۔ یا تو “مٹی پاؤ”،  یا پھر نیا “کم پاؤ”.
تیسرے رخ کا اشارہ دے دیا۔ نتیجے کو آپ کی سوچ کے دھاروں پر چھوڑتا ہوں۔ 
عامر چوہدری

Facebook Comments