جمعہ 19 اپریل 2024

انسداد دہشتگردی عدالت نے 8 سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کا تہلکہ خیز فیصلہ سنا دیا

انسداد دہشتگردی عدالت نے 8 سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کا تہلکہ خیز فیصلہ سنا دیا
فوٹو :فائل

کراچی (دھرتی نیوز) کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے رحمان بولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنا دی ہے ، عدالت نے مختصر حکم نامہ جاری کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ۔

تفصیلات کے مطابق عدالت نے ایم کیوایم رہنمارؤف صدیقی ،ادیب خانم،علی حسن قادری کو عدم شواہدپربری پر بری کر دیا  ہے ,دیگر 4 ملزمان کوسہولت کاری پرسزاسنائی گئی ہے . عدالت کا کہناتھا کہ  آگ لگی نہیں،لگائی گئی تھی ۔یاد رہے کہ کیس میں 400 سےزائدعینی شاہدین نےبیان ریکارڈکرائے ،زبیرچریاسعودی عرب اوررحمان بھولاکوتھائی لینڈسے انٹر پول کی مدد سے گرفتارکیاگیا تھا ،دونوں مجرمان کودسمبر 2016 میں پاکستان لایاگیا،2016 میں دہشتگردی دفعات کےتحت مقدمہ اےٹی سی منتقل کیاگیا تھا۔

nخیال رہے 11 ستمبر 2012 کو کراچی کی بلدیہ فیکٹری کو کیمیکل ڈال کر آگ لگا دی گئی، جس میں ڈھائی سو سے زائد مزدور زندہ جل گئے، 50 سے زائد افراد جھلسنے سے زخمی ہوئے۔ سائٹ پولیس نے 24 گھنٹے بعد مقدمہ درج کیا، فیکٹری مالکان شاہد بھائلہ اور ارشد بھائلہ نے سندھ ہائیکورٹ لاڑکانہ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرلی تھی۔بعد میں ایڈیشنل ڈسرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ عبداللہ چنہ نے فیکٹری مالکان کی ضمانت مسترد کر دی، پولیس نے مقدمے کا چالان پیش کیا تو گواہوں کی تعداد 15 سو تھی۔

2013 میں سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج زاہد قربان علوی کی سربراہی میں بننے والے جوڈیشنل کمیشن نے آگ کی وجہ شارٹ سرکٹ اور متعلقہ اداروں کی غفلت کو قرار دیا۔ کمیشن کی رپورٹ کے بعد حکومتی سطح پر ہلچل ہوئی اور مقدمے میں تبدیلیاں آنی شروع ہوگئیں۔پولیس نے دوسرا چالان پیش کیا تو مقدمے میں قتل کی دفعہ 302 خارج کرنے کے ساتھ مقدمے کے گواہوں کی تعداد آدھی کر دی گئی، 2014 میں مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نوشابہ قاضی کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔ فیکٹری مالکان ضمانت کے بعد عدالتی اجازت سے بیرون ملک چلے گئے۔

 سال 2015 شروع ہوا تو صوبائی حکومت نے ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں نو رکنی جے آئی ٹی بنا دی، اسی دوران سندھ رینجرز کی ایک رپورٹ نے مقدمہ میں طوفان برپا کر دیا۔6 فروری 2015 کو رینجرز رپورٹ میں بتایا گیا کہ ناجائز اسلحہ کیس کے ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی، آگ لگانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ایم کیوایم تھی۔ مقدمے کے ایک اور چالان میں ملزمان حماد صدیقی، رحمان بھولا، زبیر عرف چریا کا اضافہ کر دیا گیا۔

2016 میں دہشت گردی کی دفعات کے ساتھ مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کر دیا گیا۔ حماد صدیقی، رحمان بھولا کے ریڈ وارنٹ جاری ہوئے، ملزم زبیر چریا سعودیہ، رحمن بھولا تھائی لینڈ میں انٹر پول کی مدد سے گرفتار ہوئے، دسمبر 2016 میں پاکستان لایا گیا۔رحمان بھولا نے عدالت کے سامنے بیان میں کہا کہ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر اس نے زبیر چریا کے ذریعے آگ لگوائی، کارروائی حماد صدیقی اور پارٹی قیادت کی ایماء پر کی گئی، ملزم نے یہ بھی کہا معاملہ دبانے کے لئے حماد صدیقی، رﺅف صدیقی نے مالکان سے رقم وصول کی۔

 پولیس نے ایک اور چالان میں رﺅف صدیقی کو سہولت کار ملزم ظاہر کیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ منظرعام پر آئی تو مقد مے کا ایک اور چالان پیش ہوا، اس میں پولیس نے رﺅف صدیقی کو بے گناہ قرار دے دیا لیکن عدالت نے رپورٹ مسترد کر دی جس پر پولیس نے ایک اور چالان پیش کر کے رﺅف صدیقی کو ملزم بنا دیا۔

رحمن بھولا اور زبیر چریا نے عدالت کے سامنے قیادت کی ایماء پر آگ لگانے کا اعترا ف کیا لیکن جنوری 2019 میں اپنے بیان سے مکر گئے، جبکہ خوف سے کئی وکلاء نے مقدمے کی پیروری چھوڑی دی، عدالتیں تبدیل ہوتی رہیں، گواہ منحرف ہوتے رہے لیکن رینجرز کے سپیشل پبلک پراسیکوٹر ساجد محبوب شیخ مقدمے کی پیروی کرتے رہے۔

 استغاثہ نے سات سو اڑسٹھ گواہوں کی فہرست عدالت میں جمع کرائی تھی۔ چارسو گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے، تین سو چونسٹھ گواہوں کے نام نکال دیئے گئے۔ مقدمہ میں رحمان بھولا اور زبیر چریا گرفتار ہیں۔ متحدہ رہنما روف صدیقی، علی محمد ارشد محمود، فضل احمد جان، شاہ رخ لطیف، عمر حسن قادری اور ڈاکٹر عبدالستار ضمانت پر ہیں۔

متحدہ کے حماد صدیقی اور علی حسن قادری مفرور ہیں، مقدمہ میں تاخیر کی وجہ مرکزی ملزم حماد صدیقی کی عدم گرفتاری، جے آئی ٹی رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہونے اور ملزموں کے تاخیری حربے رہے۔ المناک سانحے کے مقدمے نے 8 برسوں میں بڑے نشیب وفراز اور رکاوٹوں کو عبور کیا ہے۔

Facebook Comments