جمعہ 29 مارچ 2024

ننھے بچوں کی فیڈنگ بوتلوں کے ساتھ ان کے جسم میں کیا جاتا ہے؟

ننھے بچوں کی فیڈنگ بوتلوں کے ساتھ ان کے جسم میں کیا جاتا ہے؟

ننھے بچے فیڈنگ بوتلوں کے ذریعے پلاسٹک کے لاکھوں کروڑوں ننھے ذرات نگل لیتے ہیں۔

یہ دعویٰ ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا۔

اگرچہ بچوں کو پلاسٹک کے ننھے ذرات سے بھری بوتل سے فیڈ کرنے کا خیال فکرمند کرنے والا لگتا ہے مگر جریدے نیچر فوڈ میں شائع تحقیق میں زور دیا گیا کہ اس حوالے سے مزید جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک کے ان ننھے ذرات سے انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کی اس تحقیق کے لیے محققین نے بچوں کی 10 اقسام کی فیڈنگ بوتلیں خریدیں اور تجزیہ کیا کہ اس کی صفائی اور دودھ تیار کرنے کے مراحل میں کتنی مقدار میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کا اخراج ہوتا ہے۔

تحقیق میں شامل تمام بوتلیں مکمل طور پر یا جزوی طور پر پولی پروپلین سے تیار ہوئی تھیں جو دنیا میں خوراک کی تیاری اور اسٹوریج کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک کی ایک عام ترین قسم ہے۔

نتائج میں دریافت کیا گیا کہ صفائی کے عمل کے دوران فی لیٹر 13 لاکھ سے ایک کروڑ 62 لاکھ پلاسٹک کے انتہائی ننھے ذرات ریلیز ہوتے ہیں۔

جب ان پلاسٹک کی بوتلوں کو گرم پانی سے صاف اور جراثیم سے پاک کیا گیا تو اس عمل کے دوران بھی مائیکرو پلاسٹک کے ننھے ذرات کی نمایاں تعداد کو دریافت کیا گیا۔

یہ تعداد لاکھ سے 5 کروڑ 50 لاکھ تک تھی اور اس عمل کو 21 دن تک دہرایا گیا تو محققین نے دریافت کیا کہ اس پورے عرصے میں ان ذرات کے جھڑنے کا عمل جاری رہا۔

تحقیقی ٹیم نے ابتدائی تحقیق کے بعد فالو اپ کا سلسلہ جاری رکھا اور دنیا بھر میں 12 ماہ کے بچوں میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کی تعداد جسم میں جانے کی تعداد کا تعین مختلف عناصر جیسے بوٹلوں کے ٹائپ، روزانہ دودھ پینے کی اوسط مقدار اور دیگر سے کیا۔

انہوں نے نتیجہ نکالا کہ افریقہ اور ایشیا میں بچوں کے جسموں میں پلاسٹک جانے کا امکان کم ہوتا ہے جبکہ شمالی امریکا، یورپ اور اوشیانا میں زیادہ۔

محققین نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فیڈنگ بوتلوں سے پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اخراج کو کم از کم رکھنے کے لیے سب سے پہلے تو فارمولا ملک کو پلاسٹک کے ڈبوں میں دوبارہ گرم کرنے اور مائیکرو ویو سے گریز کریں۔

انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ فارمولا ملک کو نان پلاسٹک ڈبوں میں تیار کریں جن میں پانی کو کم از کم 70 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کیا گیا ہو۔

اس دودھ کو کمرے کے درجہ حرارت میں ٹھنڈا کرنے کے بعد معیاری پلاسٹک بوتلوں میں منتقل کیا جائے۔

ان کی صفائی کے لیے مشورہ دیا گیا کہ انہیں ایسے برتنوں میں ابالا جائے جو پلاسٹک سے نہ بنے ہوں بلکہ گلاس یا اسٹین لیس اسٹیل کے ہوں اور پھر انہیں کمرے کے درجہ حرارت میں کم از کم 3 بار اسٹرالائز پانی سے دھویا جائے۔

محققین کا کہنا تھا کہ انسانی صحت پر ابھی پلاسٹک کے ان ننھے ذرات کے اثرات کو مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ پینے کے پانی میں موجود یہ ذرات انسانی صحت کے لیے خطرہ ہیں، تاہم عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ نتائج اس وقت دستیاب محدود شواہد پر مبنی ہیں۔

اس تحقیق میں شامل محققین نے بھی ان ذرات سے بچوں کی صحت پر مرتب اثرات کا تعین نہیں کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی جانی چاہیے۔

Facebook Comments