جمعہ 29 مارچ 2024

پی ایس ایل 5 کا چیمپیئن کون؟ فائنل میں آج کراچی کنگز اور لاہور قلندرز مدمقابل

پی ایس ایل 5 کا چیمپیئن کون؟ فائنل میں آج کراچی کنگز اور لاہور قلندرز مدمقابل

پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے اور ایونٹ کے فائنل میں آج کراچی کنگز کا مقابلہ روایتی حریف لاہور قلندرز سے ہو گا۔

کورونا وائرس کے سبب جب مارچ کے وسط میں لیگ کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا تو کوئی گمان بھی نہ کر سکتا تھا کہ گزشتہ تمام ایڈیشنز میں ناکامی سے دوچار یہ دونوں لاہور اور کراچی کی روایتی حریف فرنچائز فائنل میں مدمقابل ہوں گی۔

پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن سے ہی تمام شائقین کراچی اور لاہور کی فرنچائزوں کے درمیان فائنل دیکھنے کے خواہشمند تھے لیکن دونوں ہی ٹیمنوں کی تواتر کے ساتھ اوسط درجے کی کارکردگی کے سبب گزشتہ چاروں ایڈیشنز میں ایسا ممکن نہ ہو سکا البتہ اب شائقین کی دعائیں رنگ لے آئی ہیں اور آج ان کے خواب اسوقت حقیقت کا روپ لیں گے جب کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کی ٹیمیں فائنل کے لیے میدان میں اتریں گی۔

کراچی کنگز کے کپتان عماد وسیم نے کہا کہ اس فائنل کے حوالے سے باتیں پلے آف کے آغاز سے پہلے سے جاری ہیں، اب ہمارا خواب پورے ہونا کو ہے جس میں ناصرف ہماری دونوں پسندیدہ ٹیمیں مدمقابل ہوں گی بلکہ پورے ملک سے شائقین بھی اس مقابلے کو دیکھنے کے منتظر ہوں گے۔

لیگ میں اب تک کھیلے گئے فائنل مقابلوں پر نظر دوڑائی جائے تو دو مرتبہ کی چیمپیئن اسلام آباد یونائیٹڈ کا افتتاحی ایڈیشن میں ہونے والے فائنل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے مقابلہ ہوا تھا جبکہ 2018 میں ہوئے تیسرے ایڈیشن میں وہ پشاور زلمی کو شکست دے کر چیمپیئن بنے تھے۔

ابتدائی دونوں ایڈیشنز میں فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی فرنچائز کو دوسرے ایڈیشن کے فائنل میں پشاور زلمی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی البتہ 2019 میں انہوں نے اس شکست کا بدلہ لیتے ہوئے زلمی کو شکست دے کر چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

لیکن اگر مسابقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ اب تک کا سب سے بڑا فائنل مقابلہ ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں کراچی اور لاہور کی ٹیمیں ہمیشہ روایتی حریف رہی ہیں خصوصاً 1960 کی دہائی سے لے کر 1990 کی دہائی کے آخر تک ڈومیسٹک کرکٹ میں دونوں سخت روایتی حریف رہے۔

عماد وسیم نے تسلیم کیا کہ ان کی فرنچائز گزرے سالوں میں اپنی ٹیم کے شائقین کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے میں ناکام رہی اور انہیں مداحوں کے چہرے پر خوشی واپس بکھیرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا۔

کراچی کنگز کے کپتان نے کہا کہ ہم سے توقعات بہت زیادہ ہیں اور دونوں ٹیموں کے کیمپس میں بھی جوش و جذبہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شائقین نے ہماری فائنل تک رسائی کے لیے چار سال تک انتظار کیا اور ایسا ہی لاہور کے ساتھ بھی ہے، ان کے بہت زیادہ شائقین ہیں جو ہمیشہ لاہور قلندرز کو سپورٹ کرتے ہیں۔

لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر نے ہر سیزن میں آخری نمبر پر آنے کے باوجود ہیڈ کوچ عاقب جاوید سمیت ٹیم پر اعتماد برقرار رکھنے پر فرنچائز مالکان کو خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں سراہنا چاہیے کہ انہوں نے مشکل وقتوں کے باوجود عاقب جاوید کا ساتھ نہ چھوڑا، ان تمام سالوں میں مینجمنٹ ہمیں سپورٹ کرتی رہی، کچھ مواقعوں پر ڈیرسنگ روم میں بہت تناؤ بھی رہا لیکن خود پر اعتماد کی بدولت آج ہم اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

سہیل اختر نے بہترین کارکردگی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس مرتبہ اپنے شائقین کو مایوس نہیں کریں گے اور ہم جس طرح سے پلے آف سے فائنل تک پہنچے ہیں وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پوری ٹیم مکمل طور پر متحد ہے، ہمارے حوصلے بلند ہیں اور ہم بھرپور مقابلہ کریں گے۔

اگر اسموگ کی وجہ سے مقابلے لاہور سے کراچی منتقل نہ ہوئے ہوتے تو لاہور قلندرز کی ٹیم ہوم گراؤنڈ پر میچ کھیل رہی ہوتی لیکن اس سے کچھ زیادہ فرق پڑنے کا امکان نہیں کیونکہ کورونا کی وجہ سے فائنل میچ بھی شائقین کے بغیر ہی کھیلا جائے گا۔

البتہ اس مرتبہ جو بھی ٹیم ٹائٹل جیتے گی وہ محض تین ماہ ہی چیمپیئن کے اعزاز سے لطف اندوز ہو سکے گی کیونکہ چند ماہ بعد فروری میں لیگ کے چھٹے ایڈیشن کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی۔

لاہور قلندرز کے کپتان نے تسلیم کیا کہ شائقین کی غیرموجودگی کی وجہ سے کراچی اور لاہور کے مابین فائنل میں گراؤنڈ سونا سونا محسوس ہو گا لیکن انہوں نے کہا کہ ملک کو جس صورتحال کا سامنا ہے وہ ہمارے اختیار میں نہیں کیونکہ بائیو سیکیور ببل میں رہتے ہوئے کھیلنا بہت مشکل ہے البتہ ہمیں یقین ہے کہ شائقین سوشل میڈیا اور ٹی وی پر ہمیں بھرپور سپورٹ کریں گے۔

کراچی کنگز کی ٹیم بظاہر مضبوط آتی ہے فائنل میچ کے لیے دونوں ہی ٹیموں میں سے کسی ایک کو فیورٹ یا مضبوط قرار دینا زیادتی ہو گی البتہ ایک عنصر میچ میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

پلے آف کی طرح فائنل میں بھی ٹاس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا، ٹاس کی ہار یا جیت میچ کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتی ہے کیونکہ دوسری اننگز میں بیٹنگ کرنا زیادہ آسان ہو گا جس کی وجہ یہ ہے کہ ساڑھے 9بجے کے بعد سے اوس پڑنا شروع ہو جاتی ہے لہٰذا دونوں ہی ٹیموں کے کپتان ممکنہ طور پر پہلے باؤلنگ کو ترجیح دیں گے۔

Facebook Comments