ھفتہ 20 اپریل 2024

امریکہ بھارت معاہدہ۔ ملکی سلامتی کیلئے خطرہ

امریکہ بھارت معاہدہ۔ ملکی سلامتی کیلئے خطرہ

ایسے میں جبکہ دنیا بھر کی نظریں امریکی صدارتی الیکشن پر مرکوز تھیں اور پاکستانی میڈیا کی توجہ کا مرکز حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے جلسے جلوس تھے، خطے میں ایک ایسی ڈویلپمنٹ نظروں سے اوجھل رہی جس کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے تھا۔ یہ ڈویلپمنٹ امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے کی صورت میں امریکی صدارتی الیکشن سے کچھ روز قبل پراسرار طریقے سے ہوئی جس پر دستخط کیلئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیواور وزیر دفاع مائیک ایسپر اچانک بھارت گئے اور ’’بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (BECA)‘‘معاہدے پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع نے دستخط کئے۔

معاہدے کے تحت امریکہ، بھارت کو جیواسپیشل انٹیلی جنس یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی خفیہ جغرافیائی معلومات فراہم کرے گا۔ اس طرح اِن حساس سیٹلائٹ معلومات کے بعد بھارت کے پاس پاکستان کے تمام حساس مقامات کی معلومات آجائیں گی جس سے ہمارے بیلسٹک میزائل سمیت تمام خفیہ تنصیبات کا پتہ چلایا جاسکے گا۔ بھارت کو فراہم کئے گئے امریکی سیٹلائٹ ڈیٹا کی معلومات سے بھارت کو خودکار میزائل اور مسلح ڈرون کو درست مقامات پر نشانہ لگانے میں مدد ملے گی جس کے ذریعے بھارت، پاکستان کی میزائل تنصیبات کو باآسانی نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکی صدارتی الیکشن سے کچھ روز قبل ہونے والا یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کی ہدایت پر کیا گیاجو ٹرمپ انتظامیہ کی اُن کوششوں کا حصہ ہے جس کے ذریعے امریکہ اپنے اتحادیوں کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت سے معاہدے کرنا چاہتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ بھارت کو خطے کا چوہدری دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جنگی صورتحال پیدا کی جائے تاکہ چین کو جنگ میں الجھاکر کمزور کیا جاسکے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ بھارت اس سے قبل بھی امریکہ کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرچکا ہے جس کی رو سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے دفاعی اڈوں کو استعمال کرسکیں گے۔ امریکہ، بھارت حساس نوعیت کے دفاعی معاہدے پر چین شدید تشویش کا اظہار کررہا ہے مگر اس معاملے پر حکومت پاکستان کی خاموشی معنی خیز ہے اور حکومت نے اس معاہدے پر امریکہ سے احتجاج کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس کے برعکس حکومتی وزراء امریکی سفارتخانے سے اُس ٹوئٹ پر معافی کا تقاضا کرتے رہے جو مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی خبر پر کی تھی جسے امریکی سفارتخانے نے ری ٹوئٹ کردیا تھا اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ امریکی سفارتخانہ، احسن اقبال کی اس ٹوئٹ سے متفق تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’پاکستان میں بھی ایک شخص کو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح جانا پڑے گا۔‘‘ امریکی سفارتخانے کی ری ٹوئٹ پر حکومتی وزراء تلملا اٹھے اور امریکی سفارتخانے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے معافی کا مطالبہ کیا مگر کسی حکومتی وزیر کو امریکہ، بھارت حالیہ دفاعی معاہدے پر احتجاج کرنے کی جرأت نہ ہوئی حتیٰ کہ عمران خان، جو ڈونلڈ ٹرمپ سے آخری وقت تک اپنے ذاتی تعلقات کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، نے اتنی بڑی ڈویلپمنٹ کے بعد ٹرمپ کو فون کرکے یہ بتانا بھی گوارہ نہیں کیا کہ امریکہ کے اس اقدام سے پاکستان کی سلامتی کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ٹرمپ حکومت کا جھکاؤ ہمیشہ سے بھارت کی جانب رہا اور ٹرمپ کی آخری وقت تک یہ کوشش رہی کہ خطے میں بھارت کی بالادستی قائم ہو۔ چین کو بھی امریکہ بھارت معاہدے پر شدید تحفظات ہیں جو ایسے وقت میں کیا گیا جب چین اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور ہمالیہ کے مقام پر رواں سال جون سے دونوں ممالک کے مابین شدید تنائو کی صورتحال ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان اور چین کیلئے نقصان دہ اور بھارت کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو امریکی فوجی ہارڈویئر، ٹیکنالوجیز اور معلومات کی فراہمی علاقائی استحکام بالخصوص پاکستان کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔

پاکستان نے جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا اور نائن الیون کے بعد پاکستان، امریکہ کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کیلئے مسلسل قربانیاں دیتا رہا ہے جس میں پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا بھی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں جس میں پاکستان، طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں مذاکرات کی میز پر لایا مگر امریکہ، طالبان معاہدے جس میں پاکستان بھی فریق ہے، کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ امریکہ نے ایک حساس نوعیت کا معاہدہ بھارت سے کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں۔ صدر ٹرمپ نے ’’نئے پاکستان‘‘ کی طرح ’’نیا امریکہ‘‘ بنانے کا نعرہ لگایا تھا جسے امریکی عوام نے مسترد کردیا۔ ٹرمپ کا شمار امریکہ کے اُن صدور میں ہوگا جنہوں نے امریکی خارجہ پالیسیوں میں بےشمار یوٹرن لئے جس سے دنیا میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ وقت آگیا ہے کہ نومنتخب صدر جوبائیڈن، جنہوں نے انتخابی منشور میں ٹرمپ کی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی کا عندیہ تھا، ٹرمپ پالیسی میں تبدیلی لائیں اور پاکستان مخالف امریکہ، بھارت حالیہ دفاعی معاہدے پر نظرثانی کریں تاکہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے نہ پائے۔پاکستان امریکہ سے یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ پاکستان کے دشمن کے ہاتھوں کو مضبوط نہ کرے اور بھارت کے ساتھ ایسے معاہدے نہ کرے جو خطے بالخصوص پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ثابت ہوں۔

Facebook Comments