جمعہ 19 اپریل 2024

پاکستانی بچوں کوتعلیم فراہم کرنے کی تاحیات کوششیں جاری رکھیں

پاکستانی بچوں کوتعلیم فراہم کرنے کی تاحیات کوششیں جاری رکھیں

ممتاز سماجی رہنما ڈاکٹر نصیر علی کرمانی انتقال کرگئے، پاکستانی بچوں
کوتعلیم فراہم کرنے کی تاحیات کوششیں جاری رکھیں ،ڈاکٹر نصیر علی کرمانی کے
داماد محمدعامر عثمانی کے مطابق  ڈاکٹر نصیر علی کرمانی ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوے
اور بروز بدھ، ۱۸ نومبر، ۰ ۲۰۲  عیسوی،  بمطابق ۲ ربیع الثانی، ۱۴۴۲ ھجری،
ڈاکٹر نصیر علی کرمانی راوالپنڈی میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ 

ڈاکٹر
کرمانی میرے والد کی جگہ تھے اور میرے روحانی باپ بھی تھے۔ انھوں نے طائف
انٹر سائنس کالج میں مجھے پڑھایا بھی تھا ۔ میرا تعلق ان سے اس وقت سے قائم
ہے جب ہم ۱۹۸۲ میں مکہ مکرمہ سے طائف منتقل ہوئے ۔ اس وقت میں نے ان ہی کے
قائم کیئے ہوئے  سکول اور کالج میں انٹر کے فرسٹ ائیر میں ایڈمشن لیا۔
ڈاکٹر کرمانی پروفیشن کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھے مگر اپنی ساری زندگی دین
کی خدمت کرتے گزاری۔ بڑی جدوجہد کے بعد سعودی حکومت سے اجازت لے کر ایک
اسکول کھولا جو بعد میں جا کر انٹر سائنس کالج بھی بن گیا۔ اس اسکول کی
انھوں نے اپنے خون پسینے سے آبیاری کی اور ہزاروں طلبہ و طالبات اس اسکول
سے پڑھ کر آج ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔  اللہ کے دین سے اور قرآن سے
محبت اور عقیدت ہی کی وجہ سے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور ایک کارکن کی
حیثیت سے آخری وقت تک اسلام کی خدمت کرتے رہے۔ نہایت ملنسار اور سوشل طبعیت
پائی تھی اور طائف میں ہر شخص ان کو جانتا اور پہچانتا تھا۔ اپنے والد کے
انتقال کے بعد اپنے پورے کنبہ کی ذمہ داری اٹھائی

اور اپنے تمام بھائی
بہنوں کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنا دیا کہ وہ اچھی ملازمتیں حاصل کرنے کے
قابل ہوئے۔ جب میں ان کی بیٹی سے شادی کر کے امریکہ لے آیا تو اس کے چند
سالوں کے بعد وہ بھی امریکہ آ گئے۔ چونکہ ان کے خون میں ایک جوش اور جذبہ
دین کی خدمت کا ہر وقت موجزن تھا  اس لئے وہ  وچیٹا کینسز آنے کے فوراً بعد
سے ہی شہر کی مقامی مسجد میں ایک ایک اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ اسی
کے چند دنوں کے بعد وچیٹا کے چند لوگوں کے ساتھ مل کر ایک اسلامی اسکول کی
بنیاد ڈالی اور اس میں مدرس  بھی رہے۔ اب یہ اسکول ماشا ٗ اللہ مکمل ہائی
اسکول بن گیا ہے اور سینکڑوں بچے اس اسکول سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ چند
سالوں کے بعد جب دوبارہ پاکستان منتقل ہوئے تو اسلام آباد کے قریب فتح جنگ
کے مقام پر ایک اسکول کے ابتدائی مراحل میں اس کی مدد کی اور پھر اس کے
مہتمم بھی رہے۔ اس اسکول میں دینی اور اعلی دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔
ان کی ساری زندگی کسی نہ کسی تعلیمی ادارے کی خدمات میں گزری۔ قرآن شریف کا
تدبر کے ساتھ مطالعہ کرتے رہے اور جہاں جہاں رہے دوسروں کو قرآن کی تعلیم و
تربیت دیتے رہے۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں اپنے فرزند کے ساتھ مقیم
تھے اور مسلسل مختلف بیماریوں کا شکار رہے۔ مگر اس دوران بھی سلطان صلاح
الدین ایوبی پر ایک کتاب لکھ گئے۔ وہ اکثر مجھ سے ذکر کیا کرتے تھے کہ
سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہد پر کسی مسلمان  مصنف کی اردو میں کتاب
نہیں ہے صرف غیر مسلم مصنفین کی کتابوں کااردو میں ترجمہ موجود ہے۔ انھوں
نے اپنی وفات سے چند روز قبل ہی یہ کتاب مکمل کی اور اپنے ہاتھ سے اس زمانے
کے نقشے بنائے ۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند
فرمائے ۔ آمین

Facebook Comments