منگل 16 اپریل 2024

جناح کیپ کہاں سے آئی؟

جناح کیپ کہاں سے آئی؟
ساجد کمبوہ․․․․․پھول نگر
نیو ماڈل سکول کا ایک منظر ساتویں جماعت میں طلال بار بار سُوں سُوں کررہا تھا اور ہاتھ میں پکڑے ٹشو پیپر سے اپنی ناک صاف کررہا تھا۔اس کی ناک بھی سرخ ہورہی تھی،اُسے فلوہوا تھا۔بارش نہ ہونے کی وجہ سے موسم خشک اور سرد تھا جس کی وجہ سے بہت سے بچے بیمار ہوگئے تھے ،کسی کو بخار ‘کسی کو نزلہ زکام اور کئی تو ناقص نمکو‘پاپڑ‘چورن کھانے کی وجہ سے کھانس رہے تھے ۔
اُن کا گلہ خراب تھا وہ بھی پڑھائی کے دوران بھی کھانستے رہے تھے ۔
مس رابعہ بار بار پڑھتے ہوئے ڈسڑب ہورہی تھیں ۔اُس نے طلال کی طرف دیکھا اور کہا بھئی آپ واش بیسن پر جاؤ اچھی طرح سے ناک صاف کرکے آؤ اور ہاں جراثیم ختم کرنے والے صابن سے ہاتھ بھی دھو کر آنا۔
طلال جلدی سے اُٹھا اور واش بیسن کی طرف بڑھ گیا۔
ہاں تو بچوہم کیا پڑھ رہے تھے ۔
وہ مس جی آپ مثالی طالب علم کا بتا رہی تھیں ۔
ہاں تو مثالی طالب علم مثالی لیڈر اور مثالی انسان بہت کم ہوتے ہیں ۔ایسے انسانوں میں خوبیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور خامیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں مگر حسد کرنے والے اُن میں بھی خامیاں تلاش کرتے رہتے ہیں ۔
آپ کے پسندیدہ انسان یالیڈر․․․․․․․․
مس جی! مئے آئی کم ان
جی آئیں ،کیا تم سردی سے بچنے کی تدبیر نہیں کرتے ؟
مس جی رو زاُبلا ہوا انڈہ کھاتا ہوں ،چائے پیتا ہوں اور پراٹھا․․․․․․․
بھئی گرم اونی کپڑے پہنا کر و اور سر پر اونی گرم ٹوپی لیا کرو،خود کوڈھانپ کررکھو۔
مس جی یہ سمارٹ ہے ،اس پر جناح کیپ اچھی لگے گی ۔ہی ہی ہی بچے ہنسنے لگے۔
بھئی اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے مگر ہر کسی کو جناح کیپ اچھی نہیں لگتی۔
مس جی کیا جناح کیپ قائد اعظم نے متعارف کروائی تھی ؟عثمان نے پوچھا۔
بھئی ایک انفرمیشن شےئر کروں ،یہ جناح کیپ قائداعظم کی تھی ہی نہیں مگر اُن کے نام سے مشہور ہوئی ۔
کیا مطلب مس جی سمجھا نہیں ،کیپ اُن کی نہیں مگر اُن کے نام سے کیسے مشہور ہوئی ؟
چلیں اس بہانے اس مثالی انسان کے بارے کچھ بتادو ں کہ یہ کیپ جناح کیپ کیسے بنی اور مشہور ہوئی۔
یہ غالباً1935ء کی بات ہے کہ راجہ محمود کی قیام گاہ لکھنئو میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہورہا تھا،اس موقع پر محمد علی جناح اور مسلمانوں کے سر کردہ افراد بھی جمع تھے ۔مسٹر جناح بھی راجہ محمود آباد کے مہمان تھے وہاں تواب اسماعیل خان بھی اُسی دالان میں قائداعظم سے ملے وہ بے عیب لباس اور ایک سیاہ سموری ٹوپی پہنے ہوئے تھے ۔
قائداعظم نواب اسماعیل خان کی ٹوپی کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھنے گے آپ کی کیپ بہت پیاری لگ رہی ہے کچھ دیر کیلئے دے سکتے ہیں ۔نواب صاحب نے اپنی خوشی خلقی سے ٹوپی قائداعظم کو دے دی او رپہننے کی درخواست کی (قائد اعظم نے صرف دیکھنے کیلئے لی تھی پہننے کا ارادہ نہ تھا)
اُن کے اصرار پر قائد اعظم نے اپنے سر پر رکھی تو سبھی نے کہا آپ کو خوب جچ رہی ہے ۔
قائداعظم اُٹھ کر برابر والے کمرے میں گئے اور قدآور شیشے سے خود کو دیکھنے لگے ۔یہ سموری ٹوپی اُنہیں بہت اچھی لگی ۔
اُنہوں نے واپس آکر سموری کیپ نواب اسماعیل خان کو واپس کرنا چاہی مگر اُنہوں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ کو بہت اچھی لگ رہی ہے آپ کھلے جلسے میں پہن کر جائیں قائداعظم نے تجویز مان لی ۔
پھر پچاس ہزار سے زائد انسانوں کا مجمع تھا۔اُن لوگوں نے پہلی مرتبہ اپنے قائد کو سموری ٹوپی اور شیروانی میں دیکھا تو خوشی سے پاگل ہو گئے اور فلک شگاف نعروں سے زبردست استقبال کیا۔قائداعظم کو بھی یہ لباس پہن کر بے انتہا مسر ت ہوئی ۔
لکھنئو کا یہ جلسہ بہت کامیاب رہا۔یہ سموری ٹوپی اُس دن سے جناح کیپ بن گئی۔
مس جی اب کسی کوپتہ بھی نہ ہوگا کہ یہ سموری ٹوپی کس کی تھی اور کیسے مشہور ہوئی ۔
جی بالکل !لکھنئو کے اُس جلسہ کے بعد راتوں رات جناح کیپ نے شہرت حاصل کی ۔
اگلے دن مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے اُسے پہننا شروع کر دیا۔ایسی شہرت کسی لباس کو حاصل نہیں ہوئی جتنی جناح کیپ اور شیروانی کو‘مس میں بھی بڑا ہو کر جناح کیپ پہنوں گا ۔طلال نے کہا سبھی بچے مسکرانے لگے ۔انشاء اللہ ضرور مس نے کہا۔

Facebook Comments