منگل 23 اپریل 2024

پی ڈی ایم میثاق درست، پر حقائق مسخ نہ کیجیے

پی ڈی ایم میثاق درست، پر حقائق مسخ نہ کیجیے

مقتدرہ درپیش سیاسی صورتحال کی سنگینی میں کوتاہی دکھائی دیتی ہے۔ آبرومندانہ زباں و بیاںا و طرز عمل حکمران حلقوں کا بھی نہیں۔ یقیناً حزب اختلاف کی جماعتیں جن کا اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں اکٹھ کے بعض اظہارات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ چناں چہ پی ڈی ایم 17 نومبر کو منظور کی گئی اپنی بارہ نکاتی میثاق پر قائم رہے۔ عداوت میں ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں تو لا محالہ ان کی تحریک منتشر ہوگی۔ جیسے مولانا فضل الرحمان کے بھائی سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کے اشاروں اور کنایوں سے واضح ہے کہ بھارت، افغانستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے اندر ہمارے پاﺅں کے نشانات جاتے ہیں۔ مولانا کا یہ اظہار کشمیر کے مؤقف پر کاری وار ہے۔ جس کے لیے ان کی اپنی جماعت کی سالوں جدوجہد رہی ہے۔ افغانستان کے اندر روسی فوجی حملے، سیاسی مداخلت، بھارت کی ہم رکابی۔ پھر اصحاب شمال کی کفالت، ان کی عسکری و سیاسی نشونما جس کے لیے بھارت کے ساتھ ایران بھی، افرادی، عسکری سازو سامان اور مالی طور پر ان کے سروں پر موجود رہا۔ نائن الیون کے ناخوش گوار سانحات کے بعد افغانستان پر امریکا کی قیادت میں نیٹو کے تحت دنیا کے 40ممالک کا افغانستان پر قبضہ، طالبان کی حکومت کو تاراج کرنا، کھیت، کلیان، باغات، شہری و دیہی آبادیوں، اسکولوں، مدارس، اسپتالوں اور نظام زندگی کی تباہی اور افغان عوام کے قتل عام میں ہمسایہ ملک بھارت اور بالخصوص ایران پوری طرح شریک تھے

چناں چہ اس پورے منظر نامے میں جمعیت علماء اسلام منطقی رائے کی حامل ہے کہ ان ہمسائیوں نے انتہائی گھناﺅنی اور انسان کش پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ تسلیم کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں، جنرل پرویز مشرف حکومت ان استعماری ممالک کے کندھے سے کندھا ملا کر افغانوں کی بربادی میں شامل ر ہی۔ جس کے خلاف جمعیت علماءاسلام، جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں نے پاک افغان دفاع کونسل، بعد ازاں متحدہ مجلس عمل کے تحت زبردست تحریک چلائی اور یقینا جنرل مشرف حکومت کی اس تابع اور برادر کُش پالیسی نے ملکِ پاکستان کو بھی طرح طرح کی آزمائشوں اور مصائب سے دو چار کیے رکھا۔ گویا پرویز مشرف حکومت کی افغان پالیسی اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ثابت ہوئی۔ کابل کے اسٹیج پر سجائی گئی نئی سامراجی بازی میں پاکستان کے لیے کوئی جگہ نہ رہنے دی گئی۔ امریکا نے بھارت کو پہلو میں بٹھایا۔ نتیجتاً افغانستان کی اس نئی صورتحال کے باعث پاکستان عسکری گروہوں کی آماجگاہ میں تبدیل ہوا۔ جس کا خمیازہ 70 ہزار سے زائد جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اس ناسور سے اب بھی چھٹکارا نہ پایا جاسکا ہے۔ چناں چہ جب اس نوع کا مؤقف سامنے آئے گا تو بادی النظر میں اس کا مضر اثر کشمیری عوام کی طویل جدوجہد، افغان عوام، افغان طالبان اور حزب اسلامی کی بے پناہ قربانیوں پر مشتمل آزادی کی طویل تحریک پر پڑے گا۔ علی الخصوص افغان طالبان نے افغان عوام کی حمایت سے امریکا کو نکلنے اور مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ لہٰذا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی جنگ کے لمحہ اپنے اصولی مؤقف سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔

کشمیری عوام پر نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت نے ظلم کے پہاڑ ڈھا رکھے ہیں۔ یہی وطیرہ بھارت کی بزعم خیش سیکولر کانگریسی حکومتوں میں بھی رہا ہے۔ اور حیرت انگیز طور پر نئی دہلی پر حکمران ان دو جماعتوں کا نقطہ نظر کشمیر اور پاکستان بارے یکساں ہے۔ افغانستان کے اندر استعماری قبضہ گر ممالک کی معاونت میں بھارت کی مداخلت اور معاونت یکسانیت اور واضح لائن رکھتی ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر بعض سیاسی حلقے کانگریس کی طرح بی جے پی کی حکومت، ان کی پالیسیوں سے سے بھی قطعی ہم آہنگی اور موافقت رکھتے ہیں۔ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارت کو افغان طالبان سے تعلقات بہتر بنانے، ان سے مذاکرات کر نے کی تجویز دی تو افغان طالبان کی جانب سے مثبت رائے سامنے آئی۔ البتہ یہ واضح کرنا ضروری سمجھا کہ بھارت نے ہمیشہ افغان دشمنوں کا ساتھ دیا ہے۔ افغان طالبان ہو یا حزب اسلامی دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ بھارت اور پاکستان اپنے تنازعات باہمی طور پر حل کریں۔ خصوصاً کشمیری عوام کی اخلاقی حمایت کرتے ہوئے دونوں ممالک کو قضیہ بات چیت کے ذریعے حل کے مؤقف کا اعادہ کیا ہے۔ جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کا پچھلے دنوں، اتوار 25اکتوبر کو کوئٹہ کے نواح ”ہزار گنجی“ میں دھماکا پی ڈی ایم جلسہ ناکام بنانے کی غرض سے کرایا جانے کا الزام درست نہیں ہے۔ یعنی مولانایہ کہتے ہیں کہ یہ دھماکا پاکستان کے اداروں کا کیا کرایا تھا۔ یا27 اکتوبر کو پشاور کے اندر مدرسہ میں دھماکا ملک کے اداروں پر تھوپنا کسی صورت تسلیم کرنے لائق نہیں۔

معروضی حقائق یہ ہیں کہ ہزار گنجی دھماکا، کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے کے گروہی جنگ کا شاخسانہ تھا۔ جس میں اپنے منحرف و مخالف افراد کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا تھا۔ مزید برآں پشاور مدرسہ دھماکا کرنے والے بھی شناخت کے لحاظ سے مخفی عنوان نہیں ہے۔ جنہیں واضح طور بھارت اور کابل کے خفیہ اداروں نے پاکستان کے خلاف محفوظ کر رکھا ہے۔ یہ گروہ ہی عوامی نیشنل پارٹی پر حملہ آور تھے۔ ان ہی نے مولانا عبدالغفور حیدری مولانا فضل الرحمان، مولانا محمد خان شیرانی پر خودکش حملے کر ائے تھے۔ اور جدا ان سے داعش بھی نہیں ہے جس نے کابل یونیورسٹی کو طلباء و طالبات کے خون سے سرخ کر دیا۔ کابل شہر پر راکٹ باری کی۔ گویا اس حقیقت کو جھٹلانا نہیں چاہیے۔ قدموں کے نشان کابل ہو یا بھارت یہاں تک ایران کے بھی پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ بہر کیف ملک میں سول و جمہوری معاملات میں مداخلت بلاشبہ ہو رہی ہے۔ آئین کے وقار، پارلیمنٹ کی با لا دستی اور حاکمیت کا سوال درپیش ہے۔ لہٰذا اس باب میں سیاسی و جمہوری احتجاج و تحریک بہر طور جاری رکھنی چاہیے۔ البتہ سیاسی جنگ میں حقائق مسخ کرنے کی سعی جائز نہیں

Facebook Comments