جمعہ 29 مارچ 2024

آئل کمپنیز اور ڈیلز کے مارجن میں 16فیصد تک اضافہ متوقع

آئل کمپنیز اور ڈیلز کے مارجن میں 16فیصد تک اضافہ متوقع

اسلام آباد(دھرتی نیوز) تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے حکومت نے گزشتہ سال کیے گئے وعدے کے برعکس مارکیٹ اسٹڈی کے بغیر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سی) اور ڈیلرز کمیشن کے منافع کے مارجن میں 16 فیصد تک اضافہ کر سکتی ہے۔

خزانہ اور منصوبہ بندی کی وزارتیں اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا) اس وقت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی جانب سے حتمی فیصلہ لیے جانے سے قبل وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن کے ذریعہ پیش کردہ باضابطہ تجویز کا جائزہ لے رہی ہیں۔

وزارت خزانہ کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پٹرولیم ڈویژن نے پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کے ہر لیٹر پر او ایم سی کے مارجن میں 45 پیسے اضافے کی تجویز پیش کی تھی، اس نے پیٹرول پر فی لیٹر 58 پیسے اور ایچ ایس ڈی پر 50 پیسے اضافے کی بھی سفارش کی ہے۔

اسی طرح آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو اب دونوں مصنوعات پر 3.26 روپے فی لیٹر مارجن ملے گا، ڈیلرز پیٹرول کی فروخت پر فی لیٹر 4.28 روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 3.62 روپے کما لیں گے، پٹرولیم ڈویژن کے مطابق 16 فیصد اضافہ جون 2019 سے اکتوبر 2020 کے درمیان کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔

پچھلی حکومت نے 2013 میں او ایم سی کے مارجن اور ڈیلر کمیشن کو کنزیومر پرائس انڈیکس سے جوڑ دیا تھا، ان 7سالوں میں پیٹرول اور ایچ ایس ڈی پر ڈیلر کمیشن میں 92 پیسے فی لیٹر(33فیصد) اور 82 پیسے (36فیصد) کا اضافہ ہوا ہے، پیٹرولیم ڈویژن اب ایک بار میں پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر بالترتیب 58 پیسے اور 50 پیسے فی لیٹر مارجن میں اضافے کا خواہاں ہے۔

اسی طرح 7 سالوں میں آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے مارجن میں پیٹرول پر 58 پیسے فی لیٹر(26 فیصد) اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 95 پیسے (50فیصد) کا اضافہ ہوا ہے، پیٹرولیم ڈویژن اب ایک سال میں مارجن میں 45 پیسے فی لیٹر اضافے کا مطالبہ کررہا ہے۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ آئل کمپنیوں اور ان کے ڈیلروں کو کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر مارجن طے کرنا غیر منصفانہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس میں غیر معمولی اضافہ ہوتا رہے گا اور اگر اس کی قیمت کی جانچ پڑتال اور تعین کی نہ کیا جائے تو اس کی قیمت مقررہ چیز کی قیمت سے بھی بڑھ جائے گی۔

بنیادی طور پر اسی وجہ سے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نومبر کے پہلے ہفتے میں اسٹیک ہولڈرز کو حکم دیا تھا کہ وہ آزاد مطالعے کے ذریعے فارمولے پر ایک نئی نظر ڈالے اور 2ماہ کے اندر اس پر دوبارہ رابطہ کریں، یہ 13 مہینوں میں پورا نہیں ہوا اور اسٹیک ہولڈرز اب کووڈ-19 کے پیچھے چھپ رہے ہیں جہاں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے 4ماہ بعد یہ وبا آئی تھی۔

پیٹرولیم ڈویژن نے اب اسی کنزیومر پرائس انڈیکس پر مبنی فارمولے کو جاری رکھنے کی تاکید کی ہے جب تک کہ مستقبل قریب میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کی حکم کردہ اسٹڈی دستیاب نہ ہو جائے، کہتے ہیں کہ ڈیلر مطالبہ کررہے تھے کہ ان کا مارجن 5 روپے فی لیٹر تک بڑھایا جائے، انہوں نے دلیل دی ہے کہ آئل ماریٹنگ کمپنیز بھی یہ دعویٰ کر رہی تھیں کہ ان کے مارجن پر ہر سال جولائی میں ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے۔

پٹرولیم ڈویژن نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو اطلاع دی ہے کہ 6 نومبر 2019 کو او آئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈیلروں کے مارجن کا جائزہ لینے کے دوران اقتصادی رابطہ کمیٹی نے افراط زر کی اوسط شرح 6.58 فیصد کی بنیاد پر دونوں پیٹرولیم مصنوعات پر آئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈیلروں کے لیے مارجن میں ترمیم کی منظوری دی تھی، جیسا کہ پلاننگ ڈویژن نے اپریل 2018 اور مئی 2019 کے درمیان مدت کے لیے منظوری دی تھی اور جس کا اطلاق یکم دسمبر 2019 سے ہونا تھا۔

اسی فیصلے کے تحت اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جس میں پیٹرولیم، خزانہ اور منصوبہ بندی اور ترقی کے سیکریٹریوں، اوگرا اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کے اعلیٰ اراکین اور نجی شعبے سے اراکین کے طور پر ایک تعلیمی یا ریٹائرڈ پریکٹیشنر کو لیا گیا۔

کمیٹی کو پیٹرولیم مصنوعات پر آئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈیلرز کے لیے مارجن کے تعین کے لیے موجودہ طریقہ کار پر جامع انداز مہیں نظر ثانی کرنے کی ضرورت تھی اور تمام اسٹیک ہولڈرز خصوصاً صارفین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے نظرثانی شدہ طریقہ کار وضع کرنا چاہیے تھا۔

کمیٹی دو ماہ میں ای سی سی کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی کو سیکرٹریٹ کی مدد فراہم کرنے کے لئے پٹرولیم ڈویژن کی ضرورت تھی۔ ای سی سی نے یہ بھی ہدایت کی کہ مستقبل میں ہر سال جولائی سے جون تک کسی فارمولے کا اطلاق ہونا چاہئے۔

پٹرولیم ڈویژن نے اطلاع دی کہ حکم کے مطابق اس نے کمیٹی کے تین اجلاسوں کا اہتمام کیا ہے، کمیٹی نے مجوزہ مطالعہ کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس سے رضامندی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، صرف انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ منیجمنٹ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان نے 45لاکھ روپے کی لاگت سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا جبکہ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان نے اس پر افسوس کا اظہار کیا، لہذا ، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس سے بھی درخواست کی گئی کیونکہ صرف ایک واحد انسٹی ٹیوٹ نے مذکورہ مطالعے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کیا، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس نے 25لاکھ روپے کے عوض اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔

مارجن پر پہلا مطالعہ بھی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس نے 2014 میں کیا تھا، پیٹرولیم ڈویژن نے بتایا کہ اوگرا کو آئل مارکیٹگ کمپنیز کا لائسنسنگ اتھارٹی ہونے کے ناطے اس مطالعہ کا فنڈ دینے پر افسوس ہوا جبکہ منصوبہ بندی ڈویژن بھی اپنے بجٹ وسائل سے مطالعے کی لاگت کو پورا کرنے سے گریزاں ہے، دریں اثنا کووڈ۔19 کی وجہ سے کوئی بھی ابھی تک فیلڈ کام کرنے کو تیار نہیں تھا، پیٹرولیم ڈویژن نے دعویٰ کیا پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کو ایک سرکاری ادارہ ہونے کی حیثیت سے اپنے سابقہ مطالعہ کو ریفرنس کی شرائط کے مطابق لاگت کے محاسبوں کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل میں حاشیے پر نظر ثانی کے لیے ایک فارمولا کی تیاری کی اپ ڈیٹ کرنے کے لیے کہا گیا ہے،

کسی اور تاخیر سے بچنے کے لیے پیٹرولیم ڈویژن نے اب تجویز پیش کی ہے کہ مشاورت، پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرنے اور اس شعبے کی ترقی سے متعلق پالیسیوں کی تیاری کے لیے پٹرولیم ڈویژن کے تحت برقرار رکھے گئے غیر تربیتی فنڈ کے ذریعے فنڈ کو پورا کیا جائے۔

Facebook Comments