جمعرات 18 اپریل 2024

آزادی انہیں بھی چاہیے

آزادی

روبینہ طاہر
جانوروں سے مجھے بے انتہا محبت ہے،اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میرے پاس بلبل،کوئل،مینا،طوطا اور بہت سے پرندے ہیں۔امی،ابو مجھے ہمیشہ سمجھاتے ہیں کہ بیٹا!پرندوں کو قید میں نہ رکھو کیونکہ یہ آزاد فضا کے باسی ہیں،انہیں قید میں رکھنے سے تمہیں گناہ ہو گا۔

”مگر ابو میں تو ان کا بہت خیال رکھتی ہوں،ان کو ہر طرح کے پھل کھلاتی ہوں،سردیوں میں ان کی حفاظت کے لئے میں نے ان کے پنجرے میں بلب بھی لگا رکھے ہیں۔ انہیں(پرندوں)تو خوش ہونا چاہئے،بھلا جنگل میں کوئی ان کا اتنا خیال رکھتا ہے؟“
ابو میری بات سن کر ہمیشہ کی طرح مسکرا دیتے (شاید وہ سمجھتے تھے کہ میں نادان ہوں،جب ہی ایسی باتیں کرتی ہوں)حالانکہ ابو کو کیا پتا کہ میں ان پرندوں سے کتنا پیار کرتی ہوں،مگر ان کو آزاد کردوں،یہ میرے لئے بہت مشکل تھا۔

ایک دن امی،ابو شادی کی تقریب میں گئے ہوئے تھے،میں اس وجہ سے نہیں گئی کیونکہ کل میرا پیپر تھا۔امی،ابو کے جانے کے بعد میں نے پرندوں کو دانہ ڈالا اور امتحان کی تیاری کے لئے کمرے میں دروازہ بند کرکے بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر میں مجھے پیاس محسوس ہوئی،میں نے دروازہ کھول کے پانی پینے کے لئے جانا چاہا․․․․․مگر یہ کیا؟ دروازہ تو لاک ہو چکا تھا۔

مگر کیسے؟
شاید میں نے دروازے کو جھٹکے سے تیزی سے بند کیا تھا مگر اب کیا کروں۔امی،ابو تو رات نو بجے سے پہلے نہیں آئیں گے اور ابھی تو ساڑھے سات بجے ہیں،میں بہت پریشان ہوئی۔پھر سوچا روشندان سے کسی کو آواز دی جائے،شاید کوئی آس پڑوس کا سن لے اور مدد کو آجائے مگر روشندان بہت اونچا تھا۔

بس اب ایک ہی راستہ تھا کہ امی،ابو کا انتظار کیا جائے۔وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
اب مجھے احساس ہوا کہ ابھی ہم جو تھوڑی دیر کو ایک کمرے میں قید ہو گئے ہیں تو کتنا ہلکان و پریشان ہو رہے ہیں حالانکہ مجھے تو بس تھوڑی دیر کے لئے بغیر کسی تکلیف اور پریشانی کے اپنے ابو امی کا انتظار کرنا تھا،اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہ تھا اور یہ پرندے ،جن کو ہم نے کب سے قید کر رکھا ہے ان کا بھی تو دل چاہتا ہو گا کہ یہ آزاد ہو جائیں،جس طرح کہ اس وقت ہمارا دل تڑپ رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کمرے کی قید سے آزاد ہو جائیں،ان پرندوں کا بھی دل چاہتا ہو گا کہ وہ اپنے ہم جولیوں میں رہیں،آزاد فضا میں خوشی سے اُڑ سکیں۔

بس اس واقعے نے ہماری سوچ بدل دی۔اتنے میں گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔ابو آئے تو ہم اس قید سے آزاد ہوئے اور ہم نے ابو کو بتایا کہ کل ہم تمام پرندوں کو آزاد کر دیں گے۔
امی نے کہا۔”ابھی کیوں نہیں؟“
ہم نے کہا۔”امی جان!ابھی بہت رات ہو گئی ہے،میں نے ان کو ابھی چھوڑ دیا تو ان کو اپنی منزل ڈھونڈنے میں دشواری ہو گی۔

“صبح کے وقت ان کو اچھی طرح دانہ پانی ڈال کر اور جی بھر کر دیکھ کر میں ان کو رخصت کر دوں گی۔ابو میری بات سن کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا۔”واقعی تم پرندوں سے بہت محبت کرتی ہو اور یقینا آج کے بعد یہ تم سے بھی بہت محبت کریں گے جب وہ خود کو آزاد فضا میں پائیں گے کیونکہ آزادی انہیں بھی چاہیے۔“

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11