جمعہ 29 مارچ 2024

تبدیلی کا دعویٰ کرنے والے بھی اسٹیٹس کو نہ توڑ سکے

تبدیلی

تبدیلی کا نعرہ لگا کے حکومت میں آنے والی جماعت تحریک انصاف کے بارے میں بھی اب لوگ یہی کہنے لگے ہیں کہ وہ اسٹیٹس کو  کی جماعت ہے، ابھی کل ہی وزیراعظم عمران خان کہہ رہے تھے کہ جو قوتیں اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں وہ بہت طاقتور ہیں، ہمیں آگے نہیں بڑھنے دے رہیں۔کیا عوام نے یہ سننے کے لئے کپتان کو  ووٹ دیئے تھے، سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اسٹیٹس کو  توڑنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی کب ہے۔ کیا اسٹیٹس کو توڑنے سے مراد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) وفاق میں اقتدار سے باہر ہو گئی ہیں اور تحریک انصاف وہاں قدم جما چکی ہے؟اگر یہی اسٹیٹس کو ٹوٹنے کی علامت ہے تو پھر معذرت کے ساتھ کہنا چاہئے کہ اس نے عوام کو مایوسی کے  سوا کچھ نہیں دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسٹیٹس کو ایک رویے، ایک نظام اور ایک طبقے کی اجارہ داری کا نام ہے، جو اس قوم کو غلام بنا کر، دبا کر  اور آئینی حقوق سے محروم رکھ کر اپنا غیر علانیہ اقتدار قائم رکھنا چاہتا ہے جس نظام کے تحت یہاں حکومتیں بنتی ہیں،  وہ تو ایسی کسی بات کی اجازت نہیں دے گا کہ جو مافیا کا تسلط ہے وہ ختم ہو، عوام کو اُن کے بنیادی حقوق ملیں، آئین و قانون کی عملداری قائم ہو اور استحصال کا خاتمہ ہو جائے۔ اُس کی پہلی ترجیح تو یہی ہو گی کہ ایک خاص طبقے کی اجارہ داری والا اسٹیٹس کو برقرار  رہے جو اُسے توڑنے کی کوشش کرے، اُسے ایسے اُلجھا دیا جائے جیسے آج حکومت اُلجھی ہوئی ہے۔

آج عوام جب معاشی حوالے سے دیکھتے ہیں تو انہیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں  بہتر نظر آتی  ہیں، کیونکہ اُن کے دور میں مہنگائی نے عوام کا اس طرح جینا محال نہیں کیا تھا، جتنا آج ہو چکا ہے، مگر اس کے باوجود عوام آج بھی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ موجودہ حکومت مہنگائی کم نہیں کرتی تو کم از کم دیگر شعبوں میں بہتری ضرور لائے گی۔اگر آپ کو یاد ہو تو وزیراعظم عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دو شعبوں میں اصلاحات کو خاص طور پر اپنا ایجنڈا قرار دیا تھا۔ ایک عدالتی نظام میں اصلاحات تاکہ سستا اور فوری انصاف مل سکے اور دوسرا پولیس میں، آپ پچھلے اڑھائی سال کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، ان دونوں پہلوؤں پر حکومت کی توجہ سرے سے نظر ہی نہیں آئے گی۔ اب کوئی کپتان سے پوچھے کہ ان شعبوں میں اسٹیٹس کو  توڑنے سے انہیں کس نے روک رکھا ہے،کیوں اصلاحات نہیں کرتے اور تبدیلیاں نہیں لاتے۔آج بھی عدالتوں میں مقدمات لوگوں کی زندگیاں کھا جاتے ہیں،انہیں انصاف نہیں ملتا۔

عدلیہ کا موقف یہ ہے کہ اُس کے پاس وسائل کی کمی ہے، ججز کم ہیں، بیٹھنے کو کمرے نہیں ہیں، ایک ایک جج کے پاس روزانہ سو ڈیڑھ سو کیس لگے ہوتے ہیں،انصاف کیسے ہو، مجھے یاد ہے کہ جب ثاقب نثار چیف جسٹس تھے تو وزیراعظم ایک تقریب میں اُن کے ساتھ شریک تھے، وہاں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ سستے اور فوری انصاف کے لئے چیف جسٹس جو وسائل مانگیں گے حکومت فراہم کرے گی۔اس پر بہت سی تالیاں بجی تھیں، مگر آگے کیا ہوا۔ پرنالہ تو وہیں کا وہیں رہا۔ ثاقب نثار رخصت ہوگئے اور یہ بات بھی آئی گئی ہو گئی، پھر یہ بھی سننے میں آیا کہ حکومت ضابطہ فوجداری اور ضابطہ دیوانی میں تبدیلیاں لانا چاہتی ہے اس کے لئے تیزی سے کام ہو رہا ہے،مگر سب نے دیکھا یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھی اور سب کچھ اسی اسٹیٹس کو کے مطابق چل رہا ہے،جس سے تنگ آ کر عوام نے موجودہ حکومت کو اقتدار دیا تھا۔

پولیس کی کہانی تو بہت ہی دلچسپ ہے اسے ہر دور کے حاکم نے بُرا بھلا کہا، تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیا، پھر اُسی کے رنگ میں رنگا گیا۔ پولیس آج بھی بندے مار رہی ہے، ظلم ڈھا رہی ہے، جھوٹے مقدمے بناتی ہے، تفتیش میں بااثر لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ یہ سامنے کی حقیقت ہیں مگر اپوزیشن میں رہ کر پنجاب کو پولیس اسٹیٹ قرار دینے والے پیارے کپتان کو آج یہ چیزیں نظر نہیں آ رہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کی بڑی بڑی مثالیں دینے والے وزیراعظم نے پنجاب کے چھ آئی جی تو بدل دیئے مگر پولیس اصلاحات کی طرف ایک قدم نہیں بڑھایا، گھوم پھر کر ایک بڑی تبدیلی اُن کے ذہن میں یہ آئی تھی کہ عمر شیخ کو لاہور کا سی سی پی او لگا دیا جائے،نہ صرف سی سی پی  او لگایا جائے، بلکہ انہیں اتنے اختیارات دیئے جائیں کہ وہ اپنے آئی جی کو بھی ٹھینگا دکھا سکے۔اس احمقانہ تجربے کا کیا نتیجہ نکلا، سب نے دیکھا کہ تین ماہ بعد ہی عمر شیخ کو ہٹانا پڑ گیا۔

کیا کوئی اکیلا شخص بگڑے نظام کو ٹھیک کر سکتا ہے، تاوقتیکہ اُس کے پاس نظام کی طاقت موجود نہ ہو۔ اب پورے لاہور، بلکہ پنجاب کی پولیس ایک طرف تھی اور عمر شیخ دوسری طرف تھے کام بنتا تو کیا بگڑتا ہی چلا گیا۔ وزیراعظم عمران خان یہ تجربے تو کرتے رہے،لیکن انہوں نے پولیس آرڈر میں اصلاحات کے لئے کوئی کمیشن نہیں بنایا،انگریزوں کے بنائے ہوئے ایکٹ کے تحت کام کرنے والی پولیس کو جدید تقاضوں کے مطابق ایک منظم فورس بنانے کی کوئی عملی کوشش  نہیں کی، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ پولیس والے سڑکوں پر بے گناہوں کو مارتے ہیں اور پورا کرپٹ نظام انہیں بچانے پر  تُل جاتا ہے۔

رفتہ رفتہ یہ حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے کہ اسٹیٹس کو  ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے قبول کئے بغیر چارہ نہیں،آج آپ اپوزیشن کی تحریک کو دیکھ لیں، اُس میں کہیں یہ بات نظر نہیں آئے گی کہ عوام کو اسٹیٹس کو سے نجات دلائیں گے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو اس استحصال اور عوام دشمن نظام کو بدلنا نہیں چاہتیں، جن کی جنگ صرف حصولِ اقتدار کے لئے ہے، عوام کو اُن کا حق دلانے کے لئے نہیں، دو کی بجائے اب تین جماعتیں ایسی ہیں،جنہوں نے اس ملک پر حکومت کی، تینوں جماعتوں کی سوچ میں عوام کہیں نظر نہیں آتے۔ ہاں البتہ سارا کھیل عوام کے نام پر ہی کھیلا جاتا ہے۔ایک کرپٹ اور بدبودار دفتری و عدالتی نظام کی موجودگی میں عوام کی زندگی میں تبدیلی لانے کا دعویٰ کرنا ایک ایسا جھوٹ ہے جسے سن کر ابکائی آنے لگتی ہے۔

(نسیم شاہد)

Facebook Comments