جمعرات 28 مارچ 2024

بچوں کی ہر فرمائش پوری نہ کی جائے!

بچوں !

زمیندار صاحب کی دو بیویوں کا انتقال ہو گیا تھا۔دونوں بیویوں سے اولاد نہیں تھی ۔دوسری بیوی کے انتقال کے چند ماہ بعد زمیندار نے تیسری شادی کرلی تھی اور شادی کے ایک سال بعد بیٹے کے باپ بن گئے۔زمیندار کے چار بھائیوں میں یہ پہلا بیٹا تھا،باقی تین بھائیوں کی تین بیٹیاں تھیں ۔

بیٹے کا نام ریاض رکھا گیا،بچپن سے اس کے ناز اٹھائے گئے ،وہ جس خواہش کا اظہار کرتا ،فوراً پوری کی جاتی۔ہر وقت اس کے چاروں طرف ملازموں کی ایک فوج حکم کی تعمیل کے لیے تیار رہتی تھی ۔وہ غصے کا بہت تیز تھا ،جس کو چاہتا تھا،مارتا پیٹتا ،کسی کی مجال نہ ہوتی کہ چوں بھی کرے ۔

گاؤں میں اس کی دہشت خاصی چھوٹی عمر میں پھیل چکی تھی ۔
ریاض پانچ سال کا ہوا، تو گھر میں پڑھانے کے لیے ایک استاد کو رکھا گیا لیکن ریاض پر کنٹرول کون کرتا ۔

وہ ایک جگہ بیٹھتا ہی نہیں تھا۔وہ بھاگابھاگا پھرتا اور ماسٹر صاحب کا ”پیارے پیارے“کہہ کر منہ خشک ہوجاتا کہ ریاض بیٹے تھوڑا سا پڑھ لو ،مگر ریاض کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی ۔

جب ایک ماہ اسی طرح گزر گیا ،تو تنخواہ لیتے وقت ماسٹر صاحب نے بڑی ہمت کرکے زمیندار صاحب سے کہا:
”سرا بھی تک ریاض میاں قابو میں نہیں آئے ہیں ،سمجھ میں نہیں آرہا،کیا کروں ․․․․؟“
زمیندار صاحب نے استاد کی بات کو اہمیت دینے کے بجائے زور دار قہقہہ مار کرکہا:
”ماسٹر صاحب آپ گیدڑوں کو پڑھاتے آئے ہیں ،میرے شیر کو قابو میں کریں ،تو جانوں ‘․․․․․
ماسٹر صاحب منہ لٹکائے واپس چلے آئے۔

کچھ عرصے بعد ریاض کو شہر کے اسکول میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی ،لیکن وہاں بھی بات نہ بن سکی ۔
باپ نے بیٹے کی کوئی خواہش کبھی رد نہ کی اور ماں سمجھتی تھی کہ یہ تو میرا شہزادہ ہے ۔اس سے تو کبھی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کا خیال تھا کہ وقت ہمیشہ ایک سارہے گا،اسی طرح عیش وعشرت اور دوسروں پر ظلم وجبر کرتے ہوئے ساری زندگی گزرجائے گی۔

ہوایوں کہ زمیندار صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسے ۔چچا،تایا جائیداد کے معاملات دیکھنے لگے ۔ان ماں بیٹے کو ہر ماہ نپی تُلی رقم ملنے لگی ۔ریاض جیسے لاڈلے اور کھلے ہاتھ خرچ کرنے والے کے لیے وہ پیسے کہاں کافی ہوتے ۔
اب ماں کو بھی کچھ احساس ہوا کہ بیٹا تو کوئی بات سنتا ہی نہیں ،لاکھ منّتیں کرتی ،پروہ کہاں مانتا۔

روز ایک نیا جھگڑا ،ایک نئی مصیبت کھڑی ہوتی ،جو بچہ بچپن سے ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے کا عادی ہو،وہ جوانی میں کسی کی بات کیوں سنتا۔
یہ ایک ایسے بچے کی داستان ہے ،جو اپنے والدین کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے عدم توازن اور شخصی کمزوریوں میں مبتلا ہوگیا۔

سنا ہے وہ بہت ذہین بچہ تھا،اس کے ماسٹر نے اس کی ماں کو ایک مرتبہ بتایا تھا کہ وہ اچھے موڈ میں ہوتا ہے ،تو منٹوں میں سبق یاد کرلیتا ہے ۔اسے یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیسے کرنا چاہیے۔وہ شاید اس لیے غصے میں رہتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے برتر نہیں سمجھتا تھا۔

ماسٹر کی یہ بات کافی حد تک صحیح تھی ،بے انتہا لاڈپیار میں پالے جانے والے بچے عام طور پر کسی نہ کسی بات پر ناراض ہی رہتے ہیں ۔بچوں کی بے جا خواہشات بھی پوری کی جا سکتی ہیں ،لیکن حد تو پھر قائم کرنا ضروری ہے ۔روک ٹوک کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔

ڈاکٹر بینجمن اسپاک نے بچوں کی پرورش کے بارے میں اپنی کتاب ”بے بی اینڈ چائلڈکےئر“میں لکھا تھا:
”بچوں کو کچھ نہ کہا جائے،ان کی ذہنی اور نفسیاتی نشوونما کو ٹھیس پہنچے گی۔“
کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی پوری ایک نسل اس مفروضے پر بگڑ گئی اور بچوں پر والدین کا کسی قسم کا کنٹرول رہا ہی نہیں ۔

اس کے برعکس دوسری حد یہ ہے کہ بچوں کو سکھانے پڑھانے کی مشکل کا حل صرف اور صرف سختی ومارپیٹ ہے ،لیکن اس طرح بچوں میں جار حانہ جذبات کی نشوونما ہونے لگتی ہے ۔والدین جس طرح چاہیں بچوں کو موڑ سکتے ہیں ۔اس سلسلے میں سماجی ماہرین دو نظریات رکھتے ہیں ۔

ایک نظر یہ یہ ہے کہ بچے کا ذہن ایک صاف سلیٹ کی طرح ہوتا ہے ۔
والدین اور ماحول اس پر جو چاہیں عبارت تحریر کردیں ۔دوسرا نظریہ ہے کہ بچے کے ذہن پر کچھ چیزیں مثبت وراثت کے طور پر موجود ہوتی ہیں ،لیکن ان دونوں نظریات کے باوجود یہ بات پھر بھی اہم ہے کہ معاشرہ بچے کی پرورش میں بہت نمایاں کردار ادا کرتا ہے اور ماں باپ معاشرے کا اہم جزوہوتے ہیں ۔

بچوں کی پرورش کے سلسلے میں والدین کے امیروغریب ہونے سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔بعض غریب والدین بھی اپنی ضرورتیں چھوڑکر اپنے بچوں کی خواہشات اور اکثر غیر ضروری خواہشات پوری کردیتے ہیں۔بعض والدین بچوں کو بڑے ہونے تک اپنی صحیح معاشی صورتحال نہیں بتاتے ،حالانکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ بچوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے انہیں اپنے والدین کی معاشی صورتحال کا علم ہونا چاہیے ،
البتہ اس معاملے میں غریب والدین کو بچوں کو اعتماد میں لینے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔

کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ننھے بچے کو حسابات بتائے جائیں ،لیکن یہ ضروری ہے کہ بچوں کو اپنی حد کا اندازہ ضرور کراتے رہیں ،تاکہ بچے اس کے عادی بن جائیں۔
بچوں کی پرورش میں چند پہلو بہت اہم ہیں،مثلاً صلہ یا سزا یعنی اچھا کام کریں ،تو اس کا صلہ ضرور ملنا چاہیے۔

صلہ ہی آگے چل کر اچھی باتیں اور اچھے کاموں کا حوصلہ دیتا ہے ۔اسی طرح غلطی کی سزا بھی ضروری ہے ۔اگر سزانہ ملے،تو اکثر غلطی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔شرم دلانا بھی ایک طرح کی سزا ہی کہی جا سکتی ہے ۔بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ شرم دلانا ،یا مذاق اڑانا قبائلی معاشروں کا رواج ہے ۔

محبت کا معاملہ تو یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں ،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ اولاد کو کنٹرول کیا جائے۔
بچوں کو بگڑنے سے بچانے کے لیے ماہرین سماجیات نے بہت سے طریقے مختلف تحقیق کے بعد وضع کیے ہیں ،جن کی مدد اوران کو صحیح طور پر استعمال کرکے بچوں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں ۔صلہ،سزا، شرم، یا محبت․․․یہ سب والدین کے انداز پر مبنی ہوتی ہے۔
والدین اگر ذرا سنجیدگی سے غور کریں ،تو اس کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں کہ کہاں ہم نے زیادتی کی اور کہاں کمی ،کیونکہ دونوں صورتوں میں بچہ نقصان اٹھا سکتا ہے ۔

سختی اگر بچے میں ضد ،اعتماد کی کمی اور ایسے ہی بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے ،تو ضرورت سے زیادہ صلہ اور پیار بھی بچے کی تخلیقی صلاحیتوں پر براثر ڈال سکتاہے۔
بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں ان کی عزتِ نفس بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔

سب کے سامنے ڈانٹ دینا ،شرمندہ کرنا ،بچوں کے لیے بے عزتی کا باعث ہوتا ہے ،لہٰذا بچپن میں پیش آنے والے اس قسم کے سارے واقعات بچوں کو آئندہ زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔
بچوں کے ابتدائی پانچ سال ہر لحاظ سے بہت اہم قرار دیے جاتے ہیں ۔

یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بچوں کی عادت واطوار اس عرصے میں بنیاد پکڑ لیتے ہیں ۔
ماں باپ اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ بہت زیادہ لاڈپیار بچے کی تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ہر معاملہ میں میانہ روی زندگی میں بہتری پیدا کرتی ہے ۔

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11