جمعہ 29 مارچ 2024

ہم نے یہ ویکسین کیوں نہ بنالی؟

ویکسین

کوروناوائرس سے متاثر دنیا کے لئے یہ خبر تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی کہ  فائزر نامی فارماسیوٹیکل کمپنی نے  کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرلی ہے۔  اس ویکسین کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں  اور یہ امید کی جا رہی ہے  کہ یہ کرونا وائرس کے خاتمے میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔

یہ واقعی میں ایک امید افزا خبر ہے  کیونکہ کرونا وائرس نے پچھلے ایک سال میں  دنیا کو واقعی نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔  اس خبر نے جہاں سب کو خوشی دی  وہاں مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا  کہ چاہے طبی میدان ہو یا سائنس کا،  ہمیشہ مغربی اقوام ہم پر بازی لے جاتی ہیں۔  چاہے کوئی نئی ایجاد ہو یا مہلک بیماری کا علاج،  کامیابی ہمیشہ مغربی دنیا ہی حاصل کرتی ہے۔

مسلمان جن کی تاریخ ہر لحاظ سے عالیشان ہے،  حال اور مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔  اس کی بنیادی وجہ ان کی اسلامی معاشرت اور قوانین سے دوری ہے۔  آج کا مسلمان اپنے  دین کی تعلیمات پر  عمل کرنے کو  تیار نہیں۔  معاشرت، عدل و انصاف اور  زندگی گزارنے کے جو اصول ہمارے دین نے متعین کیے ہیں  وہ شاید ہی کسی اور مذہب نے اتنی خوبصورتی سے بیان کیے ہوں۔  مگر بدقسمتی سے آج کے مسلمان  اللہ کی بنائی ہوئی دنیا کو سمجھنے اور دریافت کرنے کی بجائے  اندرونی انتشار اور فرقہ بازی میں پڑے ہوئے ہیں۔

اسلامی عدل و انصاف کے سنہری اصول مغرب نے اپنا کر اپنا معاشرہ تو سدھار لیا ہے مگر فرقہ واریت نے ہمیں ابھی تک ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا ہے۔

دشمن قوتیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کروا رہی ہیں۔  رہی  صحیح کسر فضول ایپس اور اسمارٹ فون کے غلط استعمال نے نکال دی ہے۔  اگر یہی حال رہا تو تو اگلی نسل سے تو بالکل نا امید ہو جائیں۔

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔   عہد حاضر کے مفکرین، دانشور،اساتذہ اور والدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے  کہ اگلی نسل کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے  ورنہ یہ زہر جو ان کی رگوں میں اتر رہا ہے ،  اگر خدانخواستہ مکمل طور پر سرایت کر گیا  تو واپسی ناممکن ہے۔

سکولوں کے نصاب پر مکمل طور پر توجہ دی جائے  اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ  کہ یہ نصاب ان میں تخلیقی صلاحیت اور سوچ پیدا کر سکے۔  اگر ہم ایسا نہ کرسکے  تو یہ ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل میں  اسلامی تہذیب و تمدن سے لگاؤ پیدا کیا جائے۔   مغربی دنیا ایک خاص ایجنڈے کے تحت  یہ بات  باور کرانے میں سرگرداں ہے کہ  اسلامی  نظام اب فرسودہ ہو چکا ہے اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کے لیے  مغربی معاشرت کو اپنانا ہی صحیح طریقہ ہے۔

مسلمانوں کو اپنا سافٹ امیج سامنے لانے کی بھی ضرورت ہے۔ کھیل، میڈیا اور  ثقافت کے میدان میں  بہت آگے جانے کی ضرورت ہے۔ امیج بہتر بنانے میں ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ترکی نے سلطنت عثمانیہ کی عظیم تاریخ کو  ارتغل اور سلطان عبدالحمید جیسے ڈرامے بنا کر  پھر سے زندہ کر دیا ہے۔  ان ڈراموں سے جہاں ترکی کا سافٹ امیج سامنے آیا ہے وہیں  اسلام سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں  جو مغرب نے پال رکھی تھی دور ہوئی ہیں۔

پاکستان کو بھی عشق و معشوقی  جیسے موضوعات سے ہٹ کر  ایسے ڈرامے اور فلمیں بنانی چاہئیں۔  اس کے ساتھ ساتھ طب اور سائنس کے  شعبے میں بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اب بھی وقت ہےکہ  ہم ان چیزوں کو سمجھیں  اور پرانے دور کی طرح  پھر سے کامیابی کے راستے پر گامزن ہوں۔

(ہادیہ رحمان)

Facebook Comments