بدہ 24 اپریل 2024

امریکا پاکستان ایک دوسرے کیلیے ضروری کیوں؟

محمود شام

دس ہزار میل سے زیادہ فاصلے، لیکن امریکا اور پاکستان میں ہمیشہ قربتیں رہی ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت کیوں ہیں؟ اس دو طرفہ تعلق سے فائدہ کس نے زیادہ اٹھایا ہے؟

میں رات سے سوچ رہا ہوں کہ اس انتہائی اہم موضوع پر بات کی جائے۔ کیونکہ تین دن بعد نو منتخب صدر جوبائیڈن حلف اٹھانے والے ہیں، یہ حلف برداری بندوقوں کے پہرے میں ہوگی۔

واشنگٹن میں قریباً ایک ڈویژن15سے 20ہزار مسلح نیشنل گارڈز متعین کردیے گئے ہیں۔ مواخذہ زدہ صدر ٹرمپ کے حامی کسی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مختلف ریاستوں سے ٹرمپ نواز واشنگٹن کا رُخ کررہے ہیں۔

ہمارے لیے تو ملٹری۔ پیرا ملٹری۔ پہرے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن دو صدیوں سے جمہوریت۔ شہری آزادیوں۔ نظم و ضبط سے زندگی گزارنے والے امریکیوں کے لیے بالکل انوکھی اور افسوسناک صورت حال ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں سے پیاری پیاری میٹھی میٹھی باتیں کرنے کا دن۔ مستقبل ان کو ہی سنبھالنا ہے۔ اس لیے امریکا پاکستان تعلقات کی تاریخ ان کے سامنے دہرانی چاہئے۔

ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاک امریکا بندھن نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ ان تعلقات سے ہماری نسلوں کو کیا ملا۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ملک کے مفادات سامنے رکھے یا ذاتی فائدوں کو ترجیح دی۔

آپ کے آس پاس بھی بے شمار ایسے خاندان ہوں گے جن کے آدھے پیارے امریکا میں جابسے ہیں۔ کچھ گرین کارڈ پر ہیں۔ زیادہ تر امریکی شہری بن چکے ہیں۔ ہمارے ریٹائرڈ بیورو کریٹ۔ جنرل۔ بریگیڈیئر۔ سفارت کار۔ امریکا میں عمر کا آخری حصّہ بسر کررہے ہیں۔

ہمارے نوجوان اتنا پاکستان کے بارے میں نہیں جانتے جتنا امریکا کی سیاست۔ معاشرت۔ فلموں کتابوں کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ واٹس ایپ، فیس بک اور نزدیک لے آئی ہے۔

ہمارے سیٹھ۔ تاجر۔ صنعت کار بھی دونوں ملکوں میں بزنس کررہے ہیں۔ امریکی ڈالر ہماری زندگیاں سب سے زیادہ اجیرن بناتا ہے۔ ہماری سبزیاں۔ چینی۔ گندم مہنگی کردیتا ہے۔ پیٹرول کی قیمتیں بڑھوادیتا ہے۔

دنیا کی کسی طاقت، کسی اصول کو خاطر میں نہ لانے والی سپر طاقت کورونا کے سامنے عجز کا شکار ہوگئی ہے۔ اب نئے صدر کی اولین ترجیح بھی صحتِ عامہ ہوگی۔ مگر حلف برداری سے پہلے بہت کچھ ہونے کا خدشہ ہے۔

میں تو گزشتہ چار سال میں بار بار سوچتا رہا ہوں کہ امریکیوں کی شامت اعمال نے ٹرمپ کی صورت اختیار کی۔ دنیا بھر میں خلفشار برپا رکھنے والا امریکا ٹرمپ کے چار سال میں کیسی کیسی قیامتوں سے دوچار ہوا ہے۔ برسوں سے مسلسل جمہوریت کا تجربہ کرنے والے ۔

دو سو سال سے اعلیٰ یونیورسٹیوں والے مہذب معاشرے میں ٹرمپ جیسا فسادی کیسے پیدا ہوگیا۔ پرورش پاتا رہا۔ اور اطلاعات ایجادات کی اکیسویں صدی میں ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے تک کیسے پہنچ گیا۔

تاریخ کے اسی اہم موڑ پر امریکی معاشرے کو ایسے جھگڑالو لیڈر کی ضرورت کیوں تھی۔ پھر بھی اس سسٹم کی پختگی ہے کہ اس نے یہ جھٹکے اور دھچکے برداشت کرلیے۔ اب یقیناً ایسی کتابیں اور دستاویزات آئیں گی جو ان چار سال کی ہنگامہ خیزیوں سے پردہ اٹھائیں گی۔

میں اپنے آپ سے سوال کررہا ہوں کہ تین دن بعد کیا امریکا پہلے والا امریکا بن جائے گا۔ جوبائیڈن امریکی تہذیب۔ سیاست اور سماج کو پہنچنے والے صدموں کو کتنی مدت میں دور کرسکیں گے۔ صحت کا نظام متاثر ہے۔ معیشت بد حال ہے۔ امریکا کالے اور گورے میں تقسیم ہوچکا ہے۔

ہم پاکستانیوں کے لیے امریکا میں یہ تبدیلی اس لیے اہم ہے کہ پاکستان امریکی پالیسی کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ پاکستان جغرافیے کے ایک ایسے مقام پر موجود ہے کہ امریکا کو 1947 سے ہی ہماری دوستی کی ضرورت رہی ہے۔

کمیونزم کے خلاف جنگ کے دَور میں کمیونسٹ روس اور کمیونسٹ چین سے ہماری سرحدیں ملتی تھیں۔ اسی لیے امریکا کا ہم پر نظر رکھنا ضروری تھا۔ ہمارے ہاں سے وہ روس اور چین کی نگرانی کرسکتا تھا۔

پشاور میں بڈ ھ بیر کے فضائی اڈے میں پاکستان کا صدر بھی نہیں جاسکتا تھا۔ وہاں سے جاسوس طیارے کی پرواز کے بعد روسی صدر خروشیف نے دنیا کے نقشے پر پاکستان کے گرد سرخ دائرہ لگادیا تھا۔

بھارت نے روس کی آغوش میں جانے کا فیصلہ کیا تو ہماری وقعت دو چند ہوگئی۔ پھر سرد جنگ کے آخری دنوں میں افغانستان میں روسی فوجوں کی مداخلت نے بھی امریکا کے لیے پاکستان کی اہمیت بڑھا دی۔

اسامہ بن لادن کی افغانستان میں موجودگی اور نائن الیون تو امریکا کو ہمارے پڑوس میں لے آئے۔ اب تک وہ افغانستان میں موجود ہے۔ امریکا کے لیے پاکستان کی ضرورت تاریخ کے ہر موڑ پر زیادہ ہوتی رہی۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ باور نہ کیا۔ نہ کروایا کہ پاکستان کو امریکا کی نہیں بلکہ امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت سب سے امیر ملک کے 73سالہ قریبی تعلقات اور ہر ضرورت کے وقت پاکستان کی خود سپردگی کے باوجود کروڑوں پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے کیوں ہیں۔ بے روزگاری ہمارے ہاں اتنی زیادہ کیوں ہے۔

قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہماری یہ اقتصادی بد حالی۔ کیا اب تک کی ساری سیاسی اور فوجی حکومتوں کی بے تدبیری اور نا اہلی کی دلالت نہیں کرتی۔ کوئی ہے ان حکمرانوں سے پوچھنے والا۔ ان کے ذاتی مفادات تو پورے ہوتے رہے مگر ملک کے مفادات ہمیشہ خطرے میں رہے۔

کیا اس کے ذمہ دار صرف حکمراں ہیں۔ کیا ہماری یونیورسٹیاں نہیں ہیں۔ ہمارا میڈیا نہیں ہے۔ ہمارے علما نہیں ہیں۔ یہ سب بھی امریکا سے اپنے اپنے فائدے اٹھاتے رہے۔ ملکی مفادات کی پروا نہیں کی۔

اب بھی امریکا اور پاکستان کی تاریخ کے اہم فیصلہ کن موڑ پر جب ایک نئے صدر کی حلف برداری ہورہی ہے تو کیا ہماری وزارت خارجہ۔ ہماری اپوزیشن یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکوں نے پاکستان کے عوام کو باخبرہونے کے لیے کوئی ترجیحات مرتب کی ہیں۔

کیا پاکستانیوں میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ پاکستان کو امریکا کی نہیں بلکہ امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے اس لیے بھکاری بن کر نہیں بلکہ ایک با وقار قوم کی حیثیت سے اپنی شرائط منوانی چاہئیں۔

(محمود شام)

Facebook Comments