جمعہ 19 اپریل 2024

آخری دروازہ

آخری دروازہ

بلال الرشید:
گورنمنٹ ہائی اسکول میں عبدالحمید نامی ایک نئے استاد مقرر ہوئے وہ دوسرے استادوں سے ذرا مختلف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ طلبا نصاب کے ساتھ ساتھ مختلف انداز سے اپنا دماغ استعمال کریں تاکہ کچھ سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔

ایک دن انہوں نے اعلان کیا کہ آج کے ٹیسٹ میںناکام ہونے والا جو طالب علم اپنی غلطی کو کوئی مناسب وجہ بیان کرے گا اسے معاف کر دیا جائے گا۔ استاد بچوں میں دلیل دینے کی صلاحیت بڑھانا چاہتے تھے۔ یہ پیش کش صرف ایک ہی دن یعنی صرف آج کے لیے تھی کہ بچے کام کرنے کی بجائے عذر تراشنے کو کہیں مستقل عادت نہ بنا لیں۔

استاد نے کہا کہ جو پاس نہ ہوا اور اپنی غلطیوں کی کوئی دلیل بھی پیش نہ کر سکا تو اسے سزا دی جائے گی۔ اس روز ٹیسٹ بہت مشکل تھا بہت سے بچے فیل ہو ئے اب انہیں عذر تراشنا اور استاد کی پیش کش سے فائدہ اُٹھانا تھا ۔

ایک طالب علم عبدالقادر نے کئی جگہ مولانا محمد علی جوہر کا ذکر کرتے ہوئے غلطی سے محمد علی جناح لکھ دیا تھا۔

اس نے یہ دلیل دی کہ یہ غلطی نام میں مماثلت کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ استاد نے اس کی یہ غلطی معاف کر دی۔ اسی طرح ثاقت کی یہ بات بھی انہوں نے مان لی کہ 1946کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے غلطی سے1945لکھا جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ ثاقب نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ وہ الیکشن 1946ہی میںہوا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا وہ تو ایک تاریخ ساز الیکشن تھا۔

اسے بھی معاف کر دیا گیا۔ایک بچہ ہر جگہ پنڈت جواہرلعل نہرو کی جگہ گاندھی جی کا نام لکھتا رہا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو بھولے پن سے اس نے کہا:” دونوں لیڈرہندو تھے۔ ایک کی جگہ دوسرے کا نام لکھ دینا، کوئی حیرت کی بات نہیں۔

“ استاد نے مسکرا کراسے بھی معاف کر دیا۔یہ تو ہو غلطیاں تھیں، جن کی کوئی عمدہ تو جیہہ پیش کی جاسکتی تھی۔ ایک بچے نے تو حد ہی کر دی۔ اس نے کہا کہ اس کی یادداشت کم زور ہے ، لہٰذا اسے سزا نہ دی جائے۔ حیرت انگیز طور پر اس کی چار غلطیاں بھی معاف کرد ی گئیں۔

بچے اب اس ساری صورتِ حال سے لطف اُٹھا رہے تھے خاص طور پروہ جن کی غلطیاں معاف کر دی گئی تھیں۔ انسانی ذہن ایسے حالات میں فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا مد مقابل غیر معمولی طور پر مہرباں ہے۔ ایک بچے نے یہ بہانہ کیا کہ اس کے والدین پورا دن اس سے گھر کے کام کراتے رہتے ہیں۔

اسے پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا، لہٰذا آج اس کی چھے غلطیاں بھی معاف کر دی جائیں۔ ماسٹر صاحب نے اسے بھی بخش دیا ۔ ایسا لگتا تھا کہ آج غلطیاں کرنے والے سب طلبا بخش دیے جائیں گے ۔ سب دیکھ چکے تھے کہ آج ماسٹر صاحب سب پر مہربان ہیں۔پھر آخری بچے کی باری آئی اس کا نام عنایت تھا اگر وہ بھی اپنی غلطیوں کی کوئی دلیل پیش کر دیتا تو یہ کلاس معمول کے انداز میں ختم ہو جاتی۔ ماسٹر صاحب نے ہاتھ آگے بڑھایا کہ عنایت اپنا پرچا انھیں دکھائے۔ اس کی آنکھیں آنسوو¿ں سے بھری تھیں اور خوف کی شدت سے وہ کانپ رہا تھا پرچا اس کے ہاتھ سے گر گیا۔

ماسٹر صاحب نے پوچھا:” کتنی غلطیاں ہیں؟۔“بڑی مشکل سے وہ سرگوشی میں بولا::” ماسٹر صاحب! میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔ مجھے معاف کر دیجئے۔“ ماسٹر صاحب کو یوں محسوس ہوا، آسمان سے جیسے ایک بجلی ان کے دل پر آگری ہو، ہو لرز کر رہ گئے وہ کرسی پر بیٹھ گئے اور اس کے الفاظ دہرانے لگے:” میرا توسب کچھ ہی غلط ہے مجھے معاف کر دیجیے۔

“ وہ یہ جملہ دہراتے اور عنایت کی طرف دیکھتے۔بچوں نے دیکھا کہ ماسٹر صاحب بھی عنایت کی طرف کانپ اُٹھے ہیں جیسے عنایت کانپ رہا تھا۔ کچھ لمحے بعد ماسٹر صاحب کے اوسان بحال ہوئے انہوں نے عنایت سے کہا:”وہ کوئی ایک وجہ تو بتائے، کوئی عذر تراشے۔

“ سب کو اندازہ تھا کہ وہ عنایت کو معاف کرنا چاہتے تھے۔ روتے، کانپتے عنایت سے کہا:” میرے پرچے میںکوئی ایک لفظ بھی درست نہیں۔ میںبھلا اپنا بچاو¿ کس طرح کر سکتا ہوں۔ ماسٹر صاحب! آپ اگر معاف کرتا چاہیں تو کسی عذر کے بغیر بھی معاف کر سکتے ہیں۔

“ یہ سن کر ماسٹر صاحب کو ایک اور جھٹکالگا۔ عنایت سے مکمل طور پر خود کو ماسٹر صاحب کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا۔جب عنایت سزا کے خوف سے کانپ رہا تھا۔ ماسٹر صاحب نے خیالوں ہی خیالوں میں خود کو روزِ محشر رب ذوالجلال کی عدالت میں پایا۔

انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے عنایت کے ہاتھ سے گرنے والا پر چادراصل ان کا نامہ¿ اعمال ہے۔ ایک ایک کر کے انہیں اپنی زندگی کی تمام غلطیاں ، ایک ایک گناہ یاد آرہا تھا۔ چشمِ زدن میں انھوں نے اپنی پوری زندگی پہ ایک نگاہ دوڑالی تھی۔

انھیں ایسا لگا کہ ان کے نامہ¿ اعمال میں غلطیاں ہی غلطیاں ہیں۔ سب کچھ ہی تو غلط ہے انہیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ خدا کے حضور اپنے دفاع میںکہنے کے لیے ایک لفظ بھی ان کے پاس موجود نہیں۔
انسان کے پاس جب اپنی صفائی میںکہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تو وہ خود کو پروردگارِ عالم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔

عنایت کی وجہ سے ماسٹر صاحب پہ قیامت کی وہ گھڑی طلوع ہو چکی تھی۔ حشر سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور وہ پیش ہو چکے تھے۔ وہ دل میںعنایت کے شکر گزار تھے۔ آج ایک طالب علم کی وجہ سے استاد کو توبہ کی توفیق ہو ئی تھی انسان وقتی طور پر بہک جاتا ہے لیکن خلوص سے کی جانے والی توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔

جس طرح ایک طالب علم نے خود کو استاد کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا، استاد نے خود کو رحمت پروردگار کے سپرد کر دیا تھا۔ یہ توبہ کی گھڑی تھی۔ انسان کے پاس سچی توبہ کی صورت میں ایک ایسی چابی موجود ہے جس سے رحم و کرم کے درکھولے جاسکتے ہیں استاد نے بچوں سے کہا:” جب سب دروازے بند ہو جائیں اور انسان کے پاس عذر تراشنے کا موقع بھی نہ ہو تو اس وقت صرف توب کا دروازہ کھلا ہوتا ہے۔

“ استاد نے عنایت کو گلے لگاتے ہوئے اس سے کہا:” اگر آئندہ تم محنت اور توجہ سے پڑھنے کا وعدہ کرو تو میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔“عنایت نے وعدہ کیااور خوشی خوشی اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11