جمعہ 29 مارچ 2024

موٹاپا کم کرنے والی زبردست دوا دریافت

موٹاپا

موٹاپا ایک ایسا ناپسندیدہ عارضہ ہے جس سےتقریباً ہر انسان ہی بچنا چاہتا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو موٹاپے کو پسند کرتا ہو۔

موٹاپا ایک بہت پیچیدہ اور پراسرار عارضہ ہے اور موجودہ دور میں اس کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

بچوں سے زیادہ بڑوں کے لیے موٹاپا شدید خطرناک ہوتا ہے کیونکہ بالغ افراد کے لیے موٹاپے اور جسمانی وزن کو کم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

موٹاپے یا وزن کو کم کرنے کے لیے صحت بخش غذا اور ورزش کے مضبوط قوت ارادی کے ذریعے طرز زندگی میں مستحکم تبدیلیاں لازم ہوتی ہیں یا پھر دوسرا حل سرجری اور ادویات کا استعمال ہے۔

تاہم سرجری سے مختلف پیچیدگیوں کا خطرہ ہوتا ہےاور ادویات بھی ہمیشہ کام نہیں کرتی اور ان کے بھی اپنے مضر اثرات ہوتے ہیں۔

ماہرین نے اب ایک ایسی دوا کا تجربہ کیا ہےجس کے ذریعے جسمانی وزن اور موٹاپے میں با آسانی نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔

اس نئی دوا کے ٹرائل کے دوران 16 مختلف ممالک کے 2 ہزار کے قریب موٹاپے کے شکار افراد کو شامل کیا گیا تھا جنہیں دو گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

ایک گروپ کو ہفتے میں ایک بار اس دوا ’سیماگلیوٹائڈ‘ دی گئی ۔ یہ دوا ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں کے علاج کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔

دوسرے گروپ کو پلیسبو تک محدود رکھا گیا، جبکہ دونوں گروپس سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مددگار طرز زندگی کی عادات پر بھی عمل کرایا گیا۔

تجربے کے اختتام پر پلیسبو گروپ کے جسمانی وزن میں معمولی کمی آئی مگر دوسرے گروپ میں یہ کمی بہت زیادہ نمایاں تھی۔

68 ہفتوں تک اس دوا کے استعمال سے لوگوں میں کھانے کی خواہش دب گئی جبکہ ان کے مجموعی جسمانی وزن میں اوسطاً 14.9 فیصد کمی آئی۔

محققین کا کہنا ہےکہ اس وقت جسمانی وزن میں کمی کے لیے دستیاب ادویات کے مقابلے میں یہ نئی دوا دوگنا زیادہ وزن کم کرتی ہے۔

دوسری جانب ماہرین کاکہنا ہے کہ اگرچہ ٹرائل کے نتائج بہترین ہیں مگر اس دوا سے کچھ مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔دوا کے استعمال سے عارضی طور پر متلی اور ہیضہ کی شکایات بھی سامنے آئیں جن کا سامنا لگ بھگ 60 فیصد افراد کو کرنا پڑا۔

اس دوا کو ہفتے میں ایک بار استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی، تاہم ابھی یہ بات سامنے نہیں آئی کہ ٹرائل کے بعد لوگوں پر اس دوا کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔

اس دوا پر ابھی مزید ٹرائل ہوں گے اور اس کے بعد ہی موٹاپے کے شکار افراد کے لیے اس کو تجویز کیا جاسکے گا۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے ہیں۔

Facebook Comments