ھفتہ 20 اپریل 2024

ایک گونگی لڑکی کے تین شو ہر دل کو لہو کردینے والی سچی کہانی

میں نے پنجاب کے ایک دیہات میں جنم لیا ابا زمینوں پر مزدور ی کرتے تھے ماموں کی کچھ زمین تھی جس پر ہم سب لوگ مل جل کر کام کرتے تھے۔ لیاقت میرے ماموں کا بیٹا تھا ہم ایک ہی ساتھ پلےبڑھے تھے وہ دس جماعتیں پاس تھا اور میں آٹھ جما عتیں پاس تھی ہم نے ایک ہی سکول میں پڑھا تھا گاؤں میں رشتہ داری آپس میں جوڑنے کو بہتر سمجھا جاتا تھا۔ میری منگنی بھی بچپن میں لیاقت سے کر دی گئی جب میں سولہ برس کی تھی مجھے اپنے ماموں زاد کی دلہن بنا دیا گیا میں نے بیا ہ کر کہاں جا نا تھا گھر تو ایک ہی تھا بس ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں منتقل ہو گئی ممانی ماں جیسا پیا ر کرتی تھی ساس بن کر اور بھی مہربان ہو گئی اور لیاقت وہ تو مجھ پر جان چھڑکتا تھا مجھے پا کر جیسے بے حد نہال تھا۔ لیکن میری خوشیوں سے بھری زندگی اتنی مختصر ہو گی ایسا میں نے سو چا بھی نہ تھا ۔ دیہات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر دلوں میں میل آ جائے تو بہانے سے لڑائی ہو جاتی ہے۔

اس روز بھی بس بہانہ بنا کر ہماری بکری ہمسائے کے کھیت میں جا کر گھسی اور اس کی سبزی تہس نہس کر ڈالی ہمارے ہمسائے رحمت چچا کا لڑکا کاف پھر تیلا تھا۔ گلام گلوچ کر تا ہمارے در پر آ گیا شور شرابا سن کر لیاقت باہر دروازے پر گئے تو وہ ڈنڈا تانے کھڑا تھا کہنے لگا سو بار کہا ہے اپنی بکریاں باندھ کر رکھا کرو مگر تم لوگوں کو سنائی نہیں دیتا اب ہم تمہار ے بکرے کو ذبح کر دیں گے اور اس کا سالن تم بھی چکھنا۔ وہ کافی بدزبان لڑ کا تھا اس نے کچھ اور بھی بکواس کی تو لیاقت کو تہش آ گیا یو ں بات بڑ ھ گئی ۔ پھر دونوں طرف سے لوگوں جمع ہو گئے ادھر کے اور کچھ ادھر کے زخمی ہو گئے مگر لیاقت کی جان چلی گئی جب اس کے مرنے کی خبر پہنچی تو میں ایک ماہ کی بیائی دلہن تھی صدمے کو برداشت نہ کر سکی۔

اپنے خاوند کی میت کو گھر آنے سے پہلے میں روتی چلاتی ندی میں ڈوبنے کو چلی گئی سولاں کا سن تھا جذباتی عمر تھی میں نے بھی کچھ نہ سو چا سو ائے اس کے کہ لیاقت مر گیا تو میں جی کر کیا کروں گی۔ ندی کا پانی بہت تیز تھا۔ چلانگ لگا یا تو کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ ڈوبنے ہی والی تھی کہ کوئی کشتی نظر آ ئی اور اس کشتی والے نے چھلا نگ لگائی اور مجھے بچا لیا۔ مجھے موت کی بانہو ں سے کھینچ لیا پھر کشتی میں ڈال کر اپنے گھرلے آیا جہاں اس کے بھائی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پیٹ سے پانی نکا لا اور اپنی ماں کے سپرد کر دیا دو روز بعد جب ہوسا بہال ہو گئے تو انہوں نے مجھ سے سوالات کرنا شروع کر دیے کہاں سے ہو اور کہا ں سے آئی ہوں میرے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔بس ان کے منہ کو تکتی جا رہی تھی۔ تین روز تک میں وہاں رہی چوتھے د ن کسی کا آنا ہوا۔

اور اس نے پوچھا یہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے یہ تمہارے گھر کی تو نہیں لگتی چہرے سے تو مصیبت زدہ لگتی ہے۔ سچ بتاؤ کس کی عزت اٹھا کر لے آ ئے ہو۔ وہ بچائے پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے بولے صاحب واقعی ہی یہ ہماری تھی ہم کو اس سے کچھ واسطہ نہیں۔ آپ اس کو لے جا کر اس کے وارثوں کے حوالے کر دیں۔ ہم کہیں مصیبت میں نہ پھنس جا ئیں ۔ ٹھیکیدار نے دیکھا کہ لڑ کی خوبصورت اور کم سن ہے تو وہ مجھے اپنے گھر لے آ یا اس کی بیوی مر چکی تھی اس کا گھر ایک عورت کے بغیر سو نا تھا مجھ بے زبان سے کچھ پوچھ گچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی میں تو کچھ بو ل بھی نہ سکتی تھی۔ میں ایک گونگی لڑکی بن چکی تھی ۔

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11