جمعہ 26 اپریل 2024

اکبر شاہ ثانی اور انگریزوں کی سازشیں – شاہ ثانی کی کہانی

اکبر شاہ ثانی اور انگریزوں کی سازشیں – شاہ ثانی کی کہانی

تحریر : اسلم پرویز

عالم شاہ ثانی کے بڑے بیٹے کا نام میرزا جواں بخت تھا اور منجھلے کا اکبر شاہ ثانی۔ جواں بخت ہی اصل میں ولی عہد تھا لیکن چونکہ اس کا انتقال عالم ثانی کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا، اس لیے اکبر شاہ ثانی ولی عہد نامزد ہو گئے اور شاہ عالم ثانی کے انتقال کے بعد وہی تخت پر بیٹھے۔

ذکاء اللہ نے اکبر شاہ ثانی کا سال پیدائش 1759ء بتایا ہے، لیکن خود ذکاء اللہ کے ایک اور بیان کے مطابق اکبر شاہ ثانی کا انتقال 1837ء میں 82 برس کی عمر میں ہوا۔ اور اسپیر کے اندازے کے مطابق وہ 83 برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ اس اعتبار سے ان کا سال ولادت 1755ء یا 1754ء ہونا چاہیے۔ اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئیں۔ ان

گریزوں کی کوشش یہی تھی کہ دہلی کی بادشاہت رفتہ رفتہ ختم ہو جائے۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، سٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن سٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اولین مقصد ہے۔

مولوی ذکاء اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو سٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکمرانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالانکہ ہمیں اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہئیں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو… اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔

‘‘یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔

بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔ 1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ جنرل لیک نے جب اکبر شاہ ثانی کے والد، شاہ عالم ثانی کو دوبارہ تخت پر بٹھایا تو ایک اقرار نامہ لکھ کر دیا تھا۔ اس اقرار نامے میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ شہنشاہ کے خرچ کی سالانہ رقم بڑھا دی جائے گی لیکن انگریزوں نے یہ عہد پورا نہیں کیا۔ آخر کار اکبر شاہ ثانی نے 1830ء میں مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر مقرر کر کے انگلستان بھیجا۔

راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ انگلستان میں ان کا قیام تین سال رہا اور وہیں 1833ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ جب راجا رام موہن رائے کے مشن کا علم انگریزوں کو ہوا تو ان کے دل میں اکبر شاہ ثانی کی طرف سے اور بدگمانی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔ وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے۔ ان کا انتقال ستمبر 1837ء میں ہوا۔ عرش تیماری کا بیان ہے کہ اکبر شاہ ثانی کا انتقال مرضِ اسہال سے ہوا۔ اکبر شاہ ثانی کی علمی استعداد شاہ عالم ثانی کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ وہ ایک کم زور ارادے کے انسان تھے۔ اکثر معاملات میںکوئی فیصلہ کرنے سے پہلے وہ خواتین سے رجوع کرتے تھے۔

ان خواتین میں ان کی والدہ قدسیہ بیگم، ان کی چہیتی بیوی ممتاز محل اور پھوپھی دولت النساء بیگم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ خواتین بادشاہ کے دربار میں پردے کے پیچھے موجود رہتیں اور کاروبارِدربار میں ان کا پورا دخل رہتا۔ جہاں تک ظاہری شکل و صورت کا تعلق ہے اکبر شاہ ثانی ایک خوب صورت انسان تھے۔ ان کے نین نقش تیکھے اور رنگ گورا تھا۔ ایک انگریز خاتون نے اکبر شاہ ثانی کو 1812ء میں دیکھا تھا جب کہ ان کی عمر 50 سال سے تجاوز کر گئی تھی۔ اسپیر نے اکبر شاہ ثانی کے بارے میں اس انگریز عورت کے تاثرات خود اُس کی زبانی اس طرح بیان کیے ہیں:’’ان کے خد و خال بہت اچھے ہیں اور ہندوستانی ہونے کے اعتبار سے رنگ بہت گورا ہے ۔

ان کی ریش دراز ہے اور برف کی طرح سفید۔ ان کا لباس اگرچہ سادہ تھا لیکن وہ بیش قیمت جواہرات پہنے ہوئے تھے۔ 1827ء میں جبکہ اسپیر کے بقول وہ 73 برس کے تھے، میجر آرچر نے اکبر شاہ ثانی کو دیکھا تو ان کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی:’’وہ (بادشاہ) 60 برس کے معلوم ہوتے ہیں (ان کی عمر اس وقت 73 برس تھی) وہ قابلِ رشک حد تک تندرست و توانا انسان ہیں۔ وہ بہت خوب صورت ہیں اور ان کا رنگ اس سے کہیں زیادہ گورا ہے جیسا کہ اونچے طبقے کے لوگوں کو ہوتا ہے۔ ان کی مقدس سفید ریش ان کے مرتبے میں مزید اضافہ کرتی ہے اور ان کی سیاہ ذہین آنکھیں آدمی کو کافی متاثر کرتی ہیں۔‘‘شاہ عالم ثانی کے مقابلے اکبر شاہ ثانی کے علمی اور ادبی مشاغل بھی برائے نام تھے۔ وہ شعر بھی کہتے تھے لیکن ان کے مجموعۂ کلام یا کسی اور تصنیف کا پتا نہیں چلتا۔ ان کے والد شاہ عالم ثانی کا تخلص آفتابؔ تھا اور اس رعایت سے انہوں نے اپنا تخلص شعاعؔ رکھا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ ان کا یہ تخلص خود شاہ عالم آفتابؔ ہی نے تجویز کیا ہو۔ تذکروں میں عموماً ان کے یہ دو شعر ملتے ہیں:تجھ زلف کو عہدے سے یہ دل کیونکر برآوےتاحشر نہ چھوٹے یہ بلا جس کے سر آوےواں بار شعاعؔ ذرّہ نمط ہم کو کہاں ہےدن رات جہاں سجدے کو شمس و قمر آوے

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11