جمعرات 25 اپریل 2024

وہ چائے جو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے خطرہ بن گئی تھی

چائے

یوپون(دھرتی نیوز انٹرنیشنل ڈیسک) امریکہ کی ایک بھلا دی گئی چائے جو اب دوبارہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے

پویون چائے کے پتے

تصور کریں کہ آپ کے اردگرد ہر طرف چائے کی بہتات ہو اور آپ کو علم بھی نہ ہو۔ اس دور میں جب دنیا بھر میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب چائے ہے اور توقع ہے کہ 2026 تک عالمی معیشت میں اس کا حصہ 81.6 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

اس تناظر میں آپ کی رسائی جنگلی چائے کے ایک نہ ختم ہونے والے ذخیرے تک ہو جائے تو یہ یقیناً ایک خواب کی طرح لگے گا۔ لیکن امریکہ کے جنوب کے ایک بڑے حصے میں یہ خیال ایک حقیقت ہے۔

ان لوگوں کے لیے جن کو علم ہے ان کے لیے یہ ایک عام سا پودا ہے جو بکثرت پایا جاتا ہے مگر اکثریت اسے نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ ایک زمانے میں برِ اعظم امریکہ میں کیفین کا حامل یہ سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب تھا جو علاقائی تاریخ کا بھی اہم حصہ رہا ہے۔

یویون کا پودا

یوپون جنوب مشرقی اور شمالی امریکہ میں پایا جاتا ہے اور یہ واحد ایسا پودا ہے جس میں چائے کا اہم جُزو ‘کیفین’ موجود ہے۔ اسے جورجیا اور فلوریڈا میں بسنے والے مقامی قبائل ’کسینا’ کہتے تھے جبکہ نئے علاقوں کے متلاشی ہسپانوی سیاحوں نے اس کے گہرے رنگ کی وجہ سے اسے ‘سیاہ مشروب’ کا نام دیا تھا۔

سمِتھسونین انسٹی ٹیوشن کے ڈاکٹر ویلم میرِل کی تحقیق کے مطابق امریکہ کے تقریباً تمام ہی قدیم قبائل یہ چائے پیتے تھے۔ بھوننے اور ابالے جانے کے بعد اس کے پتوں سے گہرے نارنجی رنگ کا خوشبودار اور خوش ذائقہ محلول نکلتا ہے۔ اس کے کیمیائی اجزا بدن اور دماغ کو فرحت بخش احساس دیتے ہیں اور یہ معدے پر بوجھ بھی نہیں بنتا۔

بیضوی سبز پتوں اور سرخ دانوں والا یہ خودرو پودا آج بھی امریکہ کے دیہی علاقوں اور قصبوں میں بڑی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس سے چائے بھی بن سکتی ہے۔ شمالی امریکی کی تاریخ میں یوپون کا ذکر تسلسل کے ساتھ نہیں ہوا اور اب ایک بار پھر اس کو امریکہ کے باسیوں کی بھلائی گئی چائے کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔

ایک زمانے میں امریکہ کے تقریباً تمام ہی قدیم قبائل اس سے چائے بناتے تھے

دنیا بھر میں کیفین والے مشروبات کا ابتدائی استعمال علاج اور روحانیت سے جڑا رہا ہے۔ یونیورسٹی آف لندن کی پروفیسر جوڈِتھ ہولی کے مطابق کافی کا رواج نوویں صدی میں ایتھوپیا سے اس وقت شروع ہوا جب صوفی ریاضت کے دوران خود کو طلوعِ صبح تک چوکس رکھنے کے لیے پیتے تھے۔

اور رٹگرز یوینورسٹی کے ڈاکٹر چنگ ینگ کے مطابق چین میں ہزاروں سال تک چائے کا استعمال علاج کے لیے کیا جاتا تھا اور سنہ 618 سے 1279 کے دوران اسے ایک مشروب کے طور پر مقبولیت ملی۔

قدیم امریکی قبائل میں بھی یوپون کا یہ ہی کردار تھا۔ آثارِ قدیمہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ پودا کم سے کم ایک ہزار برس قبل استعمال میں تھا۔ تاہم اس کا باقاعدہ ذکر یورپی سیاح الوار نونیز اور انگریز جمیکن تاجر جوناتھن ڈکسن کی تحریروں میں نظر آیا۔

گو کہ اسے روزمرہ کے مشروب کے طور پر پیا جاتا تھا مگر یوپون کو اکثر صرف مردوں کے لیے مخصوص ایک رواج میں بھی استعمال کیا جاتا تھا جس میں روزہ رکھ کر اسے پینا اور قے کرنا شامل ہوتا تھا اور اس کا مقصد جسمانی اور ذہنی طور پر پاک ہونا تھا۔

قدیم امریکی باشندے اسے روحانی پاکیزگی کے لیے استعمال کرتے تھے

سمتھ سونین انسٹی ٹیوشن کے ڈاکٹر ویلیم سٹرٹوینٹ کا کہنا ہے کہ یورپی سیاحوں اور مہم جوؤں نے جیسے جیسے امریکہ کے جنوب میں نوآبادی بستیاں بنانا شروع کیں تو یوپون مشروب ان کی زندگیوں میں بھی داخل ہوا۔

شمالی فلوریڈا میں اس کا استعمال اتنی کثرت سے ہوتا تھا کہ ماہر نباتات فرانسسکو ژیمینیز نے 1615 میں نئی دنیا کے ادویاتی پودوں کے بارے میں لکھا کہ ‘کسی دن اگر کوئی ہسپانوی اسے نہ پیئے تو اسے لگتا ہے کہ وہ مر جائے گا۔’

جرمن ماہر نباتات یوہان ڈیوڈ نے 1783 میں، جب وہ نارتھ کیرولائنا میں سفر کر رہے تھے، اپنی ڈائری میں لکھا کہ کالی چائے کا یہ قدرتی طور پر شیریں متبادل 1780 کی دہائی میں اتنا زیادہ مقبول ہوگیا تھا کہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں ان کے ہاتھ سے چائے کی مارکیٹ ہی نہ چلی جائے، اور اسی لیے انگلینڈ نے یورپ میں یوپون کی درآمد محدود کر دی تھی۔

سنہ 1789 میں کِیو کے رائل بوٹانک گارڈن کے سپرنٹنڈٹ ویلیم آئٹن نے یوپون کو آئلکس وُمیٹوریا کا متنازع نام دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا اس پودے کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ ان کی نیت جو بھی رہی ہو مگر اس نام کے بعد اس کے مضر اثرات یعنی قے آوری کی وجہ سے اس کی مقبولیت کم ہوتی چلی گئی۔

انیسویں صدی کے آغاز پر امریکہ میں یوپون کی مقبولیت مزید کم ہوگئی کیونکہ اسے غریبوں اور دیہاتیوں کا مشروب سمجھا جانے لگا، جو درآمد شدہ مہنگی چینی اور چائے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ قدیمی باشندوں میں بھی اس کی وقعت کم ہوگئی کیونکہ یا تو وہ قبائل ختم کر دیے گئے یا پھر ان علاقوں میں ہجرت کر گئے جہاں یہ پودا ناپید تھا۔ اور رفتہ رفتہ امریکہ میں لوگوں نے اسے فراموش کر دیا۔

برسوں تک امریکیوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پویون کے پتے بھونے جا سکتے ہیں۔

سنہ 2011 میں تباہ کن خشک سالی کے بعد ٹیکساس کی رہائشی ابیان فیلا نے اپنے خاندان کے کھیت پر نگاہ ڈالی اور صحتمند، سبز جھاڑیوں کی ایک قطار پر غور کیا جو تباہ حال منظر سے متصادم تھی۔

کچھ سال بعد ایک ہزار میل دور مشرق میں فلوریڈا میں برائن وائٹ نے اپنے گھر کے قریب ساحلی جنگلات میں پیدل سفر کرتے ہوئے ایسا ہی مشاہدہ کیا۔

فیلا اور وائٹ نے اس سخت جان پودے کی آزادانہ طور پر تحقیق کی اور اس پر دونوں کو یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ اس پودے کے پتوں سے نہ صرف ایک کیفینٹڈ مشروب بنتا ہے بلکہ یہ بڑی حد تک فراموش ہونے والی کہانی کا مرکزی کردار بھی تھا۔

وائٹ کا کہنا تھا کہ ‘جیسے جیسے مجھے یوپون کے بارے میں مزید معلومات ملیں مجھے سخت حیرت ہوئی اور اس بات پر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ کسی کو اس کے بارے میں علم نہیں تھا۔’

اگرچہ وائٹ کی توجہ جلد ہی اس کی تاریخ کی طرف ہوئی لیکن انھیں یہ احساس بھی ہوا کہ اس کی چائے بنانے کی کوشش کرنا مشکل ہوگا، کیونکہ اسے سیکھنے کے لیے کوئی باقی ہی نہیں بچا تھا۔

نوآبادیاتی دور میں ڈاکٹر ہڈسن کی لکھی ہوئی ڈائریوں میں اسے بنانے کی ترکیب پر عمل کرتے ہوئے وائٹ نے پتیوں کو چننے اور بھوننے کے طریقوں پر تجربہ کرنا شروع کیا۔ اسی طرح کے انداز میں فیلا نے اپنے باورچی خانے میں اپنی پہلی کھیپ میں یوپون بھوننے کی کوشش کی اور انھوں نے یہ دریافت کیا کہ ان میں اس کا قدرتی ہنر ہے اور ان میں مزیدار میووں اور مکھن جیسے ذائقے کی چائے تیار کرنے کی قابلیت ہے۔

نباتیات کے بارے میں تجسس اور تاریخ میں دلچسپی کے نتیجے میں فیلا اور وائٹ نے غیر متوقع طور پر اپنے آپ کو قدیم مشروبات کی بحالی کے متوازی سفر پر پایا۔

فیلا نے 2013 میں آسٹن ٹیکساس کے باہر کیٹ سپرنگ یوپون کا آغاز کیا، اور ایج واٹر فلوریڈا میں وائٹ نے یوپون برادرز قائم کی۔ یوپون کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ مزید کاروبار کھل رہے ہیں جنھوں نے اس تاریخی چائے کی فروخت اور اسے فروغ دینا شروع کردیا ہے۔

فیلا

لوسٹ پائینز یوپون نامی کمپنی کی شریک مالک ہائیڈی واچر اپنی شراکت دار جیسن ایلس سے بات کرتے ہوئی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے جب اُنھوں نے اسے بیچنا شروع کیا کہتی ہیں کہ ‘جب ہم نے سنہ 2016 میں ٹیکساس میں کسانوں کی منڈیوں میں اسے بیچنا شروع کیا تو لوگ حیران و پریشان ہوگئے۔’

اُنھوں نے اپنی ساتھی جیسن ایلیس کے ہمراہ گھریلو تجربات کے ذریعے اپنے یوپون کے علم کو بہتر بنایا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘(مقامی) لوگوں نے اسے زمین کی تزئین کے پودے کے طور پر پہچانا لیکن اُنھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک چائے بھی ہے۔’ ایک بار جب اُنھوں نے اسے چکھا تو صارفین ہر ہفتے اسے مزید طلب کرتے تھے۔

یوپون کا مطالبہ تیزی سے بڑھا ہے کیونکہ یہ پورے امریکہ میں پہچانی جانے لگی ہے۔

سنہ 2018 میں امریکن یوپون ایسوسی ایشن (اے وائی اے) کی بنیاد یوپون کے شوقین افراد کو اکٹھا کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ڈالی گئی تھی کہ تیزی سے واپس لوٹنے والی یہ صنعت ماضی کی قدر کو اخلاقی اصولوں کے طریقوں پر بحال کرے۔

یہ کامیابی کے ساتھ ذمہ داری اور نوآبادیاتی دور کے استحصال کے طریقوں کو مسترد کرنے کا موقع تھا جن سے کافی اور چائے جیسی دیگر کیفین والے مشروبات دوچار رہے ہیں۔

آج کل اے وائی اے سے منسلک چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے کاشتکار اور کاروباری افراد ہر سال 4500 کلوگرام سے زیادہ یوپون کی کٹائی، بھنائی اور اس کی فروخت کا کام کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر اس کی کاشت کر رہے ہیں جسے برقرار رکھا جاسکے اور ماضی کی روایت کا بھی خیال کرتے ہیں۔

وائٹ نے کہا کہ ‘یوپون کسی چیز کو یوں بھلا دیے جانے کی ایک افسوسناک علامت ہے، اور مجھے امید ہے کہ اس کی بحالی کی کوشش میں ہم لوگوں کو جو ہوا ہے اس کی یاد دلانے کے ساتھ تھوڑی بہت اصلاح بھی کرسکیں گے۔ اُنھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ‘ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ اسے صحیح طریقے سے بحال کریں۔’

اب چھوٹے پیمانے پر پویون اگانے والے کاشتکار اس کی پائیداری اور مقامیت کو اجاگر کرکے اسے فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں

یوپون برادرز مقامی حقوق کے فروغ اور ان کو یوپون کی تجارت میں شامل کرنے کے لیے بننے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور استحصال کیے بغیر اور ماحول سے متعلق شعوری طریقوں پر عمل کرتے ہوئے یوپون کی کاشت کرتے ہیں جو اس کی فصل سے منسوب رواج کے مطابق ہے۔

کیٹ سپرنگ یوپون ایسے افراد کی مدد کرتے ہیں جنھیں خطرات لاحق ہوں اور اُن کی ملازمت بحال کرنے کی پیش کش کرتے ہیں۔ لوسٹ پائنز ٹیکساس کنزرویشن گروپس کے ساتھ تنوع کو فروغ دینے کے علاوہ جنگل میں لگنے والی آگ کے خطرے کو کم کرنے کے لیے جنگلی یوپون کی کٹائی میں تعاون کرتے ہیں۔

فیلا کا کہنا ہے کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ ہم نے یوپون کی دریافت نہیں کی، لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ ہم اس مشروب سے منسوب اقدار کو فروغ دے سکیں گے جن کا احترام کرتے ہوئے لوگ ہزاروں سال سے اس سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔’

Facebook Comments