جمعرات 25 اپریل 2024

جرمنی! دیکھنا کہیں یہ بہار خزاں میں نہ بدل جائے

تحریر: انزک چوہدری

پچھلے سال کرونا وباء نے جب اچانک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو جرمنی دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک تھا جو کرونا کے خلاف مؤثر حکمتِ عملی اپنانے کی ایک بہترین مثال بن کر سامنے آیا۔ غیرملکی ابلاغ میں مثالیں دی جانے لگیں کہ کرونا پر قابو پانا ہے تو جرمنی سے سیکھو۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ سطور لکھ رہا ہوں کہ آج جب پوری دنیا اس مہلک وباء کے مہیب سایوں سے باہر نکل رہی ہے، تو جرمنی دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں یہ سائے اور بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی آج دنیا کے ان ممالک میں ہے جہاں کرونا وباء کی تیسری لہر کے خطرات شدت سے منڈلا رہے ہیں۔

گو کہ اب بھی پر امید ہوں کہ ہم مایوسی کی گہرایوں سے جلد ہی باہر نکل آئیں گے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پر دنیا کے لیے کامیابی کی مثال بنا ملک آج خدانخواستہ نشانِ عبرت بنتا جا رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم وائرس کے خلاف ایک جیتی ہوئی جنگ کو ہارتے جا رہے ہیں؟ آخر کیوں ہم اس مقام کو برقرار نہ رکھ پائے جس کی وجہ سے ہم پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ تھے؟ کیا وجہ ہے کہ آج وہی مشعلِ راہ، ظلمتِ شب کے سامنے بے بس نظر آتی ہے؟

مجھے یقین ہے کہ ان جیسے بے شمار سوال جرمنی میں بسنے والے، اس دھرتی سے جنم لینے اور اس پر رزق کی تلاش میں آنے والوں کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہوں گے۔ وباء کی انتہا پر بننے والی کمزور پالیسیاں، ویکسین کی غیر مؤثر ترسیل، حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل اور اس طرح کی بہت سی دیگر ایسی وجوہات ہیں جن کے بارے میں لکھنے لگا تو یہ تحریر بہت طویل ہو جائے گی۔ لیکن ان تمام وجوہات کو اگر ایک چیز میں سمویا جائے تو وہ ہو گی۔۔۔۔۔۔ “جرمنی کے باسیوں کا غیر محتاط رویہ”۔

مجھے کہنے دیجئے کہ کرونا کے معاملے میں ہم لوگوں نے جو رویہ اپنایا اسے کہیں سے بھی کسی صورت بھی ایک ترقی یافتہ قوم کا رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ آج بھی کوئی سروے اٹھا کر دیکھ لیجیے جرمنز کی اکثریت یہ کہتی نظر آئے گی کہ کرونا وباء کے متعلق اٹھائے گئے حکومتی اقدامات مکمل طور پر غیر ضروری ہیں۔ بلکہ آپ کو یہ تک سننے کو ملے گا کہ کرونا نام کی کوئی وباء وجود ہی نہیں رکھتی۔ ایسے غیر ذمہ دارانہ رویوں نے ہی ہمیں اس حال میں پہنچایا ہے۔

ان دنوں جرمنی میں بہار لوٹ رہی ہے۔ طویل سرد موسم اور ریکارڈ ٹھنڈ کے بعد موسمِ بہار جرمنی کے باسیوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ ایسے میں جرمنز اور یہاں بسنے والے تارکین وطن شدید بے تاب ہیں کہ کب حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں ختم ہوں اور کب وہ بدلتے موسموں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اگلے کچھ دنوں تک حکومت ملک میں لاک ڈاؤن کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ یقینی طور پر ایک طرف کرونا کے بڑھتے کیسز اور دوسری طرف عوام کی جانب سے پابندیوں کے خلاف بڑھتی مزاحمت، میرکل حکومت کے لیے دو دھاری تلوار بن چکی ہے۔ جس کا ایک زخم اسے بہرحال کھانا ہی ہے۔

ہو سکتا ہے کوئی ایسا درمیانہ راستہ نکال لیا جائے جس سے جرمنی کو تیسری لہر کی شدت سے بھی بچا لیا جائے اور عوامی خواہشات کی تکمیل بھی ہو جائے۔ لیکن ایسی صورت میں تمام تر ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ بالفرض لاک ڈاؤن جزوی یا کلی طور پر اٹھا لیا جائے تو ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ بلاوجہ گھروں سے باہر نکلنے اور بھیڑ جمانے کی بجائے طے کردہ ایس او پیز کی پیروی کریں۔ موسم ضرور بدل رہا ہے، بہار کی آمد آمد ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ بہار سے لطف اندوز ہونے کے چکر میں مایوسی کی خزاں کو ملک پہ طاری کر بیٹھیں۔ جرمنی دیکھنا کہیں یہ بہار خزاں میں نہ بدل جائے۔

خیر اندیش: انزک چوہدری

Facebook Comments