جمعرات 25 اپریل 2024

طلاق کی خُوشی: ’اب تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے‘

تعلق کوئی بھی ہو اس کا خاتمہ زندگی کے مشکل مراحل میں شمار کیا جاتا ہے، البتہ پاکستانی ٹائم لائنز پر ایک تصویر نے اس تصور کو چیلنج کیا تو صارفین کو گفتگو کے لیے نیا موضوع بھی دے گئی۔

سوشل میڈیا پر زیرگردش تصویر میں ایک خاتون نمایاں ہیں جن کے سامنے ٹیبل پر پڑے کیک پر ’ہیپی ڈائیوورس‘ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ یہ تصویر شیئر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاتون طلاق کی خوشی منانے کے لیے کیک کاٹ رہی ہیں، ایسا کرتے ہوئے وہ غمزدہ نہیں بلکہ مطمئن دکھائی دے رہی ہیں۔
’طلاق کیک‘ کی تصویر پر تبصرہ کرنے والے صارفین کہیں مشکل سے نجات پانے پر مذکورہ خاتون کو مبارکباد دیتے رہے تو کہیں اس معاملے پر خوشی منانے کی مخالفت کرتے دکھائی دیے۔

کچھ صارفین نے طلاق کے ناپسندیدہ پہلو کی جانب توجہ دلائی تو ’طلاق کیک‘ کی تصاویر شیئر کرنے والی صارف کا کہنا تھا کہ طلاق تبھی ہوتی ہے جب کوئی ساتھ نہ رہنا چاہے، کوئی خوشی میں طلاق نہیں لیتا۔

شاہجہان ملک نامی خاتون صارف نے اپنے تبصرے میں زہریلے تعلق کے خاتمے کو درست وجہ قرار دیا تو مزید لکھا ’طلاق کے بعد آگے بڑھ جانا چاہیے نہ کہ اس کی خوشی منائی جائے۔

طلاق کے موقع پر خوشی منائے جانے کی بات کچھ صارفین کو ہضم نہ ہوئی تو اعتراض کیا گیا کہ کوئی عورت کیسے اس کی خوشی منا سکتی ہے۔ اسی دوران کچھ دیگر صارفین نے متبادل پہلو کی نشاندہی کی تو موقف اپنایا کہ ’جب آپ ایک زہریلے اور دباؤ کے ماحول سے نکل آئیں اور آپ کو اچھا محسوس ہو، تو اس کی خوشی منائیں‘۔

تعلق کا ٹوٹنا خوشی کا موقع ہو سکتا ہے یا نہیں کی بحث کا سلسلہ مزید آگے بڑھا تو ایک صارف معاشرتی رویوں کو بیچ میں لے آئے۔ اپنے تبصرے میں انہوں نے لکھا ’اب تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے‘۔

الٹی گنگا بہنے کی دلیل سے اتفاق نہ کرنے والے صارفین نے اپنے موقف کا دفاع کیا تو لکھا ’طلاق کو ناپسندیدہ قرار دینے کے باوجود اس کی اجازت دینے کا مقصد یہی تھا کہ اگر ساتھ گزارا نہ ہو تو چھوڑا جا سکے۔ ساتھ رہ کے لڑنے مرنے، ذہنی بیمار نسل پروان چڑھانے سے ہزار گنا بہتر ہے کہ علیحدہ ہو کے خوشگوار زندگی گزاری جائے۔‘

طلاق لی جائے یا نہیں؟ سے شروع ہونے والی بات طلاق پر کیا ردعمل دیا جائے؟ سے آگے بڑھی تو کچھ صارفین نے موقف اپنایا کہ بہتر ہے شادی ہی نہ کی جائے تاکہ طلاق کی نوبت ہی نہ آئے، جس پر کچھ دیگر کا کہنا تھا کہ شادی کا تعلق معاشرے کی بنیاد ہے اس کو ختم کر دینا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بنے گا۔
ہر قیمت پر اکٹھا رہنے کے بجائے راہیں جدا کر لینے کو بہتر سمجھنے والوں نے زندگی ضائع کرنے کے بجائے طلاق کا راستہ اپنانے کی حمایت کی تو چند روز قبل انڈیا میں عائشہ عارف نامی جواں سال خاتون کی خودکشی کے واقعہ کا ذکر کیا۔ مذکورہ واقعے میں ایک خاتون نے جہیز اور سسرال سے متعلق مسائل کی وجہ سے تنگ آ کر اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ مذکورہ تصویر سوشل ٹائم لائنز پر آئی ہو اور اس نے طلاق کو کیسے برتا جائے کا سوال اٹھایا ہو۔ گفتگو کا حصہ بننے والے کچھ صارفین نے اس پہلو کی نشاندہی کی تو لکھا کہ یہ ایک پرانی تصویر ہے، جو طلاق پانے والی خاتون کی دوست نے بنا کر شیئر کی تھی۔ بعد میں اس پر ردعمل آیا تو مذکورہ خاتون کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کرنا پڑے تھے۔
ماہم آصف نامی خاتون کی یہ تصویر اس سے قبل فروری 2017 میں بھی سوشل میڈیا پر خاصی وائرل رہی تھی۔ اس دوران اندرون ملک اور بیرون ملک میڈیا میں بھی ان کے اس عمل کو خاصی توجہ دی گئی تھی۔

Facebook Comments