بدہ 24 اپریل 2024

جرمنی سے ملک بدری: کیا پاکستان میں احمدیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں؟

جرمنی میں پناہ کے خواہش مند جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کو ملک بدر کر کے واپس پاکستان بھیج دیے جانے کا اندیشہ ہے۔ لیکن کیا پاکستان میں ان کی زندگیاں محفوظ رہیں گی؟

احمد کا خاندان بے یقینی کی صورت حال سے دوچار ہے۔ انہیں جرمنی میں رہائش اختیار کرنے کا اجازت نامہ نہیں ملا۔ احمد اس خاندان کے سربراہ اور ایک تربیت یافتہ انجینیئر ہیں، لیکن انہیں جرمنی میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

یہ خاندان مہاجرین کے لیے بنائے گئے ایک کیمپ میں مقیم ہے لیکن کسی بھی دن انہیں ملک بدر کیے جانے کا فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔ انہیں حال ہی میں معلوم ہوا کہ جرمنی سے پاکستانیوں کی اجتماعی ملک بدری کے لیے اگلی خصوصی پرواز سترہ مارچ کے روز روانہ ہو گی۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس فلائٹ پر انہیں بھی ملک بدر کر کے پاکستان بھیج دیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے آبائی وطن پاکستان میں ان کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔

پاکستان میں دوسرے درجے کے شہری
احمد کے خاندان کا تعلق احمدیہ مسلم کمیونٹی سے ہے۔ اس جماعت کا قیام برصغیر میں برطانوی راج کے دوران انیسویں صدی میں عمل میں آیا تھا۔

اس تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کو احمدی کہا جاتا ہے اور وہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں انہیں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔

جرمن صوبوں تھیورنگیا اور سیکسنی میں احمدی برادری کے ترجمان محمد سلیمان ملک نے بتایا کہ پاکستان کے وفاقی آئین میں بھی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا چکا ہے۔

سن 1974 سے پاکستان میں احمدی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ انہیں اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے اور عبادت کے لیے دی جانے والی اذان کو بھی اذان کہنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

ملک میں نافذ توہین مذہب کے سخت ترین قوانین کے تحت صرف ‘السلام و علیکم‘ کہنے پر بھی احمدیوں کو سزائے موت تک سنائی جا سکتی ہے۔ بطور غیر مسلم احمدی ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں۔

احمدیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت
احمد اور ان کی اہلیہ سحر کلثوم کو بھی پاکستان میں شدید نفرت انگیز واقعات کا سامنا رہا ہے۔ کلثوم کا کہنا ہے کہ اسکول میں انہیں ‘کافر‘ کہا گیا جس پر انہیں اسکول تبدیل کرنا پڑا اور پھر وہ اپنی تعلیم بھی مکمل نا کر پائیں۔

کلثوم کا ایک کزن بھی قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ان کے خاندان نے اپنے آبائی گاؤں میں رہائش ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ احمد سے شادی کے بعد اس جوڑے کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، جن کے بہتر مستقبل کی خاطر دونوں نے پاکستان سے جرمنی روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستانی حکام طویل عرصے سے احمدیوں کے خلاف جاری تشدد کو کم کرتے دکھاتی رہے ہیں اور کئی واقعات میں تو حکومت احمدیوں کے خلاف تشدد کی حامی بھی دکھائی دی۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقیم احمدی اقلیت خطرات سے دوچار ہے، اس لیے اس کے ارکان کو پناہ دی جانا چاہیے۔

اسی وجہ سے برطانیہ، امریکا اور ہالینڈ میں طویل عرصے سے احمدیوں کی ملک بدری پر پابندی عائد ہے۔ تاہم جرمنی میں ایسا نہیں ہے۔

جرمنی میں پناہ کی درخواستیں انفرادی طور پر نمٹائی جاتی ہیں
اس وقت جرمنی میں پناہ کے خواہش مند کم از کم 535 احمدیوں کو ممکنہ طور پر جرمنی سے ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صرف کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر جرمنی میں پناہ نہیں دی جا سکتی اور ہر درخواست کا انفرادی طور پر جائزہ لیے جانے کے بعد ہی پناہ دینے کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔

جرمنی کی انتظامی عدالتیں بھی اپنے فیصلوں میں کئی مرتبہ یہ نشاندہی کر چکی ہیں کہ پاکستان میں کئی ایسے مقامات ہیں، جہاں احمدیوں کی جانوں کو خطرہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے ربوہ کی مثال دی جاتی ہے، جہاں احمدیوں کے بڑی تعداد آباد ہے۔

تاہم سلیمان ملک اس بات سے متفق نہیں، ان کا کہنا ہے، ”پاکستان میں احمدی کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہیں۔ ربوہ میں بھی متواتر احمدیوں کے قتل کر دیے جانے کے واقعات پیش آتے ہیں۔‘‘

سلیمان ملک اور سیکسنی ریفیوجی کونسل کا کہنا ہے کہ جرمنی سے پاکستانیوں کی ملک بدری میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجوہات سیاسی ہیں۔

گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا کے باعث جرمنی سے ملک بدریوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تاہم اس برس ملک میں انتخابات ہو رہے ہیں اور جرمن حکومت ملک بدریوں کے ذریعے دکھانا چاہ رہی ہے کہ اس کی مائیگریشن پالیسی سخت ہے۔

اس حوالے سے سلیمان ملک نے کہا، ”میرے خیال میں معلومات یا سیاسی عزم کی کمی ہے۔ اس کا نقصان بدقسمتی سے ان لوگوں کو ہو رہا ہے جو یہاں مقیم ہیں اور اب انہیں ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔‘‘

‘ہم کہاں جائیں‘
احمد اور ان کا خاندان اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہے۔

سحر کلثوم نے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ”جرمن آزادی سے رہ رہے ہیں، انہیں شاید سمجھ نا آئے۔ لیکن جب کوئی پاکستان میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں آتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دکھ بھی آتے ہیں۔ اپنا وطن اور اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ دینا آسان نہیں ہے۔ اب ہم یہاں ہیں اور ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ لیکن ہم کہاں جائیں؟‘‘

احمد کو خوف ہے کہ وطن واپسی پر ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان کے ایک انکل بھی سن 2005 میں برطانیہ سے پاکستان واپس گئے تھے۔ تب ان کے گاؤں میں کسی نے افواہ پھیلا دی کہ وہ احمدی ہے اور غیر ملکی جاسوس ہے، جس کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے انہیں قتل کر دیا تھا۔

احمد کا خاندان جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے لیے تمام قانونی راستے اختیار کر چکا ہے لیکن تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ اب وہ صرف ملک بدری کے نوٹس کا انتظار ہی کر سکتے ہیں۔

Facebook Comments