جمعرات 28 مارچ 2024

قاسم علی شاہ اور کچھ افراد کی سوچ !

ممکن ہے کہ آپ میری اس بات سے اختلاف بھی کریں لیکن میرے نزدیک یہ حقیقت ہے کہ جب انسان ہمت کادامن چھوڑ دیتاہے تو وہ منزل سے مزیددور ہوجاتاہے،اب یہ بھی ایک المیہ ہے کہ معاشرے میں کئی افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی کو دیکھ کر یہ تاثرملتاہے کہ شایدانہیں اپنی منزل کا علم نہیں؟راستے پر توچل رہے ہیں مگریہ نہیں معلوم کہ یہ راستہ جاتاکہاں ہے؟پھرچلتے چلتے آپ کی قسمت کی گیم شروع ہو جاتی ہے کہ وہ اس راستے کے اختتام پر آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرے یا پھرناکامی کامنہ دیکھنا پڑے۔لہذا میں یہ سمجھتاہوں کہ عملی زندگی کے سفرمیں کسی بھی راستے پر چلنے سے پہلے اگر رہنمائی مل جائے تو آپ کی کامیابی کے امکان زیادہ ہوجاتے ہیں۔

 بعض دفعہ ایسا بھی ہوتاہے کہ آپ عملی زندگی میں تجربے کرتے کرتے تھک جاتے ہیں لیکن ناکامی ہی ملتی ہے پھرآپ ہمت ہار جاتے ہیں اوراس کا نتیجہ بعض دفعہ بڑا بھیانک بھی نکلتاہے،اس سطح پر آپ کیساتھ دو کام ہوں گے یا توآپ ناکامی کے غم سے زندگی سے ہی بیزارہوجائٰیں گے یا کسی رہنماکے حوصلہ بڑھانے سے ایک دفعہ پھر کوشش کریں گےاورپھرکسی کی رہنمائی میں کی جانےوالی یہ کوشش آپ کوکامیابی سےہمکنارکردے گی۔

میرے مشاہدے کے مطابق ہمارے معاشرے میں کئی طرح کے لوگ ہیں،اگرآپ بھی اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں تو ممکن ہے آپ بھی ایسے لوگوں کو دیکھیں گے،ہم آج ان لوگوں میں سے دو طرح کے لوگوں کا ذکر کریں گے،ایک تووہ لوگ جواس چیز پر یقین رکھتے ہیں کہ کامیابی کیلئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں بس محنت کرو اور آگے بڑھو،آپ کامیاب ہوجائیں گے،کوئی مشکل نہیں،کوئی رکاوٹ نہیں،ایسے لوگوں کے پاس اپنے دلائل ہیں اور وہ عملی زندگی کے سفر میں اکیلے ہی کامیابی پر پہنچناچاہتے ہیں یا پہنچ چکے ہوتے ہیں،حالانکہ ان کی کامیابی میں نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے لوگوں کاہاتھ ہوتاہے مگر وہ یہ کریڈٹ کسی اور کو نہیں دینا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کمال انہیں کا ہے اور وہ اس میں کسی کو بھی حصے دار نہیں بناسکتے،وہ خود اس چیز کو تسلیم کریں،نہ کریں مگر دوسرے لوگ یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اس منزل تک پہنچانے میں کن کن کا ہاتھ ہے۔

 دوسری قسم کےوہ لوگ ہیں جومحنت توکرتےہیں،منصوبہ بندی بھی کرتےہیں مگروہ عملی زندگی میں کئی کامیاب لوگوں کی زندگیوں کو پڑھتے ہیں،کئی کامیاب لوگوں کی باتیں سن کر ان کے تجربات سے سیکھتے ہیں ، یعنی اپنے تجربے پر وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ عملی زندگی میں کامیابی تک پہنچنے کیلئے دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتےہیں،جو غلطیاں اُنہوں نےکیں،وہ یہ نہیں کرتے،ایسی چیزوں سے بچ کرکامیابی کی طرف بڑھتے ہیں اور بالآخر وہ اپنی منزل کو پالیتے ہیں،منزل پرپہنچنےکےبعد بھی وہ اپنے اندر تکبر نہیں آنے دیتے بلکہ اسے قدرت کی مہربانی اور رہنماؤں کی رہنمائی کو وجہ قرار دیتے ہیں اورحوصلہ بڑھانے والوں کے شکرگزار رہتے ہیں کیوں کہ عملی زندگی کے سفر میں کئی بار ناکامی کی وجہ سے انسان تھک جاتاہے اور اس تھکاوٹ کو وہ لوگ دور کرتے ہٰیں جومعاشرے میں دوسروں کے حوصلے بڑھارہے ہیں۔

 اب المیہ یہ ہے کہ پہلی قسم کےلوگ خودچاہےجس مقام پربھی ہوں،کامیاب ہوں یا ناکام لیکن وہ حوصلہ بڑھانے والوں کے سخت خلاف ہیں،اس اختلاف کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں،ہرانسان کی متعلقہ انسان کے بارے میں،اس کے مخالف بننےمیں،اس کی سوچ کو رد کرنے میں پروفیشنل جیلسی بھی ہوسکتی ہے،کسی کو کامیاب دیکھ کر جلن بھی ہوسکتی ہے یا پھر حوصلہ بڑھانے والے انسان سے ذاتی عناد بھی ہوسکتی ہے۔اگرآپ کو کتابیں پڑھنے،تقریبات میں شرکت کرنے،یوٹیوب یافیس بک پر لیکچرسننے کاشوق ہے تو پھر آپ جانتے ہیں کہ مختلف شخصیات لوگوں کا حوصلہ بڑھانے میں پیش پیش رہتی ہیں۔

 سیدقاسم علی شاہ کاموٹیویشن کی دنیا میں ایک نمایاں نام ہے اور وہ پاکستان سمیت دنیابھرمیں پڑھے،سنے اور دیکھےجاتےہیں،قاسم علی شاہ اپنےاندازگفتگو ، اخلاق اورموٹیویشن میں خاصے تجربے کی بنیادپرہردلعزیز ہیں مگر معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہٰیں جنہیں قاسم علی شاہ کے اس کام سے اعتراض ہے ،مثلاایک صاحب کو یہ کہتے سنا کہ یہ بندہ بس باتیں ہی کرتاہے اورسہانے خواب ہی دکھاتاہے،میں نے پوچھا کہ کوئی بری بات تو نہیں کرتا؟ جواب آیا نہیں ،توپھر باتیں کرنے پر کیسااعتراض؟۔

ایک نے فیس بک پر سٹیٹس لگایاکہ قاسم علی شاہ کی باتیں سن کر کامیاب ہونے سے بہترہے،بندہ جون ایلیا کی شاعری سن کر برباد ہوجائے۔ایک صاحب کہنے لگے کہ یہ کیا بات ہوئی بھلا کہ وہ کہتے ہیں کہ کاروبارملازمت سے بہترہے،جاب نہ کرو،کاروبار کرو،میں نے عرض کیاکہ بات سمجھنے میں آپ کو غلط فہمی ہوتو یہ قاسم علی شاہ کا قصورنہیں بلکہ آپ ان کی بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرناچاہتے۔پھریہاں افراد کی تقسیم دو گروپس میں کی جاسکتی ہے،ایک قاسم علی شاہ کے حامی اور دوسرے مخالف ،حامی گروپ کا موقف یہ بنتاہے کہ اپنی مرضی سے عملی زندگی کاسفر شروع کرنے میں اگر کسی تجربہ کار کی باتیں سن کر آگے بڑھاجائے تو کامیابی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں اور مخالف گروپ کاموقف یہ بنے گا کہ ناکام ہوجاؤ لیکن کسی سے موٹیویشن نہ لو۔۔۔

 صاحبو!ہمت بڑھاناکوئی عام کام نہیں بلکہ اگرقرآن پاک کوبھی ترجمہ کیساتھ پڑھاجائےتو اللہ تعالیٰ بھی مایوسی سےمنع کرتاہے،امید دلاتاہے،کہیں فرماتاہےکہ میں تمہاری شہ رگ سےبھی قریب ہوں،کہیں فرماتاہے میری رحمت سے مایوس نہ ہو،کہیں فرماتاہے زمین پررینگنے والی ہر چیز کے رزق کا بندوبست میرے پاس ہے ،کہیں فرماتاہےکہ وہ بہترین رزق دینےوالاہے۔۔یہ ساری آیات کےمفہوم کیاہمارےحوصلےنہیں بڑھاتے ؟۔۔اگر حوصلہ بڑھتاہے تو پھراگر بندوں میں سے بھی کوئی کسی کاحوصلہ بڑھادے تو کیاہرج ہے؟مسئلہ حوصلہ بڑھانے سے ہے یا پھر قاسم علی شاہ کے ہی حوصلہ بڑھانے سے ہے؟۔۔فیصلہ میں نے نہیں کرنا،آپ خود کریں۔۔

 (بلاگرمناظرعلی مختلف اخبارات اورٹی وی چینلز کےنیوزروم سے وابستہ رہ چکےہیں،آج کل لاہور کےایک ٹی وی چینل پرکام کررہے ہیں۔عوامی مسائل اجاگرکرنےکےلیےمختلف ویب سائٹس پربلاگ لکھتے ہیں۔ان سےفیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔)

Facebook Comments