منگل 23 اپریل 2024

لانگ مارچ سے نیب مارچ ، اپوزیشن نے کیا کھویا ، کیا پایا ؟؟؟

تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے ملک کی تمام چھوٹی بڑی اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کے نام سے اتحاد قائم کیا تاہم حکومت کو گراتے گراتے اب اسے اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔۔۔آصف زرداری کی جانب سے استعفے دینے سے انکار اور نواز شریف کی واپسی کی تکرار نے اپوزیشن اتحاد میں خلیج پیدا کردی ہے اور 26 مارچ کا لانگ مارچ ملتوی ہو کر اب “نیب مارچ” میں تبدیل ہو چکا ہے ۔۔۔ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کی وزیراعظم عمران خان کے خلاف گھن گرج جاری ہے تاہم آپسی اختلافات کے بعد اب ان رہنماؤں کے چہروں پر پہلے جیسی چمک دکھائی نہیں دے رہی ۔۔۔

پی ڈی ایم میں اختلافات کا پنڈورا ایسے وقت میں کھلا ہے کہ جب ن لیگ اور جے یو آئی کی جانب سے لانگ مارچ کی تیاریاں آخری مراحل میں تھیں ، اپوزیشن جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات نے حکومت مخالف جماعتوں خصوصا مسلم لیگ ن کو شدید دھچکا پہنچایا ہے ،ان اختلافات کے نتیجے میں اپوزیشن کمزور اور حکومت مضبوط ہوئی ہے جبکہ لانگ مارچ ملتوی ہونےسےحکومت نےابھی سکھ کاسانس لیاہی تھا کہ مریم نواز کی 26 مارچ کی نیب پیشی کو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان نے کیش کرانے کا فیصلہ کرکے حکومت کے لئے نئی مشکل کھڑی کردی ہے۔۔۔لاہور ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت ملنے کے بعد مریم نواز شریف سر دست گرفتاری سے تو بچ گئی ہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ 26 مارچ کو ممکنہ ہنگامہ آرائی اور پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال مریم نواز کے لئے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہیں ۔۔۔ مسلم لیگ ن نے 26 مارچ کو پاور شو کی تیاریاں شروع کردی ہیں جبکہ اس سلسلہ میں لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ڈیوٹیاں بھی تفویض کردی گئی ہیں ۔۔۔

دوسری طرف پنجاب حکومت نے ممکنہ احتجاج کو روکنے کی پلاننگ کرتے ہوئے رینجرز کو طلب کر رکھا ہےجبکہ نیب لاہور دفتر کو “ریڈ زون” قرار دیتے ہوئے 25 اور 26 مارچ کے لیے رینجرز اور پولیس کی نفری کو بھی نیب دفتر اور گرد و نواح میں تعینات کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔پولیس کے ساتھ ڈولفن سکواڈ اورسپیشل پولیس یونٹ کے دو ہزار اہلکار بھی اس موقع پر اپنے فرائض سرانجام دیں گے اور کسی بھی گڑ بڑ کی صورت میں”شرپسند عناصر”کو فوری گرفتار کیا جائے گا ۔۔۔مسلم لیگ ن میں شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا “پسندیدہ”سمجھا جاتا ہے جبکہ بعض حلقے یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈراپنے”بڑے بھائی “اور”بھتیجی “کےسخت لہجےاور”بد زبانی”سےنالاں ہیں اوراپنی “فرمائش “پرجیل میں”سرکاری مہمان نوازی”سےلطف اندوزہو رہے ہیں ،ان کے صاحبزادے “حمزہ میاں ” بھی اپنی تایا زاد بہن کی پیشی پر “گرم جوشی” کی بجائے اپنے والد گرامی کی طرح “مہمان اداکار”کے طور پر انٹری دیں گے ۔۔۔ن لیگ کے بعض دیگر رہنما بھی بظاہر تو مریم نواز کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں تاہم اندرکھاتے وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے “پیارے “ہیں اور اندر کی پلاننگ “واٹس ایپ” پر “خفیہ ہاتھوں”تک پوری ایمانداری کے ساتھ لفظ با لفظ پہنچا رہے ہیں تاکہ ان کی “فائلوں کا کھاتہ” بند ہی رہے ۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نےڈھائی سال سے بڑی حکمت عملی اور دانائی کے ساتھ اپنے مخالفوں کو ایسے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے کہ اقتدار کی آدھی مدت گذر جانے کےبعدبھی یہ شکنجہ کھلنے کی بجائے مزید سکڑ رہا ہے اوراپوزیشن سیاسی انتقام کا ڈھنڈورا پیٹتے عدالتوں میں کھجل خوار ہو رہی ہے، آنے والے دنوں میں کئی اپوزیشن رہنماء سلاخوں کے پیچھے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے باپ کی طرح”کھوچل” ہو چکے ہیں اور وہ کسی صورت بھی مسلم لیگ ن کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لئے تیار نہیں ہیں ،مریم نواز کا بلاول سے “اچھے تعلقات” کا راگ اُن کے دل میں کوئی نرم گوشہ پیدا نہیں کرسکےگا جبکہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی ان دونوں بڑی جماعتوں میں مزید دوریاں نظر آئیں گی ۔۔۔

 بلاول بھٹو زرداری کا اچانک منصورہ کا دورہ اور سراج الحق سے ” پیار کی پینگیں” بڑھانا پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ “مولانا “کی ن لیگ سے بڑھتی ہوئی قربت اور مریم نواز سے “راز و نیاز ” پیپلز پارٹی کو کچھ عرصہ سے کھٹک رہا تھا ، بلاول نے اپنے”بڑوں” کے مشورے پر منصورہ حاضری دے کر مولانا کو “خاموش پیغام”دے دیا ہے کہ وہ اپنی بقاء کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔۔۔بہرحال وزیراعظم سے تمام تر اختلافات اور تحفظات کے باوجود ماننا پڑے گا کہ “کپتان” کو اناڑی کہنے والوں کی تمام چالیں حال کی گھڑی تک ناکام ہوئی ہیں،احتساب کے حوالے سے”کپتان” کی ثابت قدمی نے ساری اپوزیشن کو ناکوں چنے چبوائے ہیں ،کوئی مانے یا نہ مانے اپوزیشن کی لانگ مارچ ، استعفوں اور جلسوں کی سیاست بری طرح ناکام ہوئی ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اب اپوزیشن جماعتوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج حکومت ہٹانا نہیں بلکہ اپنا اتحاد بچانا ہے جس میں اسے کامیابی ملتی دکھائی نہیں دے رہی ۔۔۔

Facebook Comments