جمعہ 19 اپریل 2024

بیتے زمانے۔۔۔۔

آخری لوگ…
1950 سے 1999 میں پیدا ہونے والے ہم خوش نصیب لوگ ہیں.
کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔
جنہوں نے لالٹین (بتی)کی روشنی میں کہانیاں بھی پڑھیں۔
جنہوں نے اپنے پیاروں کیلیئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔
جنہوں نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔
جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔
گاؤں کے درخت سے آم اور امرود بھی توڑ کر کھائے.
پڑوس کے بزرگوں سے ڈانٹ بھی کھائی لیکن پلٹ کر کبھی بدمعاشی نہیں دکھائی.
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں۔اور گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے عید کارڈ بھی اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بهیجے.
ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں کیونکہ
ہم گاؤں کی ہر خوشی اور غم میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوئے.
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے ٹی وی کے انٹینے ٹھیک کیے فلم دیکھنے کے لیے ہفتہ بھر انتظار کرتے تھے
ہم وہ بہترین لوگ ہیں
جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کی۔ جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔
ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو۔
رات کو چارپائی گھر سے باہر لے جا کر کھلی فضاء زمینوں میں سوئے دن کو اکثر گاؤں والے گرمیوں میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گپیں لگاتے مگر وہ آخری ہم تھے۔
کبھی وہ بھی زمانے تھے
سب صحن میں سوتے تھے
گرم مٹی پر پانی کا
چھڑکاؤ ہوتا تھا
ایک سٹینڈ والا پنکھا
بھی ہوتا تھا
لڑنا جھگڑنا سب کا
اس بات پر ہوتا تھا
کہ پنکھے کے سامنے
کس کی منجی نے ہونا تھا
سورجُ کے نکلتے ہی
آنکھ سب کی کھلتی تھی
ڈھیٹ بن کر پھر بھی
سب ہی سوئے رہتے تھے
اور اب ﻣﻮﺑﻞ ﺁﺋﻞ ﺳﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔
ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ‘
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﺴﯽ ﺍﺏ ﺭﯾﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
ﺟﻦ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺭﺍﺕ ﺁﭨﮫ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺭﺍﺕ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﭘﻮﺭﯼ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮈﻧﺮﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﺑﺠﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﭨﺮ ﮐﻮﻟﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﺑﺮﻑ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ۔کیونکہ ﺍﺏ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﯾﺞ ﮨﮯ ‘ ﻓﺮﯾﺰﺭ ﮨﮯ ‘
ﺍﺏ ﺗﻨﺪﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﯿﮍﮮ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺗﮯ۔
ﺍﺏ ﻟﻨﮉﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﻠﺘﮯ-
ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﻭﺍﻻ ﺳﮑﻮﻝ ﺑﯿﮓ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ۔
ﺑﭽﮯ ﺍﺏ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺍﻣﯽ ﺍﺑﻮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ‘ ﯾﺎﺭ ‘ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﻠﺐ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﺍﯾﻞ ﺍﯼ ﮈﯼ ﻣﯿﮟ۔
ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ‘ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺏ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮈﺑﻞ ﺑﯿﮉ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺑﭽﮭﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﮔﺪﮮ۔
ﺍﺏ ﺑﭽﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻼﺗﮯ ‘ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﺮ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﺰ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﻦ ﺳﮍﮐﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﺩﮬﻮﻝ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﮔﺎﮌﯾﺎﮞ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺍﮌﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﯿﺎﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺳﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﯽ ﺳﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﯿﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺎﻝ ﻣﻼﻧﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺗﻮ ﻟﯿﻨﮉ ﻻﺋﻦ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎﻝ ﺑﮏ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻭﮨﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﺳﻌﻮﺩﯾﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺰﯾﺰ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮﮔﻔﭧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ خاندان کے بچوں کے لیئے کلونے ‘ ‘ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﯿﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﮐﮯ ﮔﻮﻟﮯ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﺮﺳﯿﺎﮞ ﺑﻨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ … ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ‘ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﺮﺳﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ‘ ﺳﺴﺘﯽ ﺑﮭﯽ ‘ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﺑﮭﯽ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺏ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺐ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ‘
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻂ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﮈﺍﮐﺌﮯ ﺳﮯ ﺧﻂ ﭘﮍﮬﻮﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﮈﺍﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﭘﮍﮪ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﺴﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺟﺎ ﻭﮦ ﺟﺎ۔
ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺁﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ‘ ﻧﺼﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻓﺘﺢ ﻗﺮﯾﺐ ‘ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮐﺮ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﯾﮧ ﻭﮦ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ” ﺍﻭﮐﮯ ‘‘ ﻧﮩﯿﮟ ” ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ‘ ‘ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﻮﺕ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻗﮩﻘﮩﮯ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮨﺮ ﮨﻤﺴﺎﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﺎﻟﻦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﻠﯿﭧ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﻠﯿﭧ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﮏ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ‘ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻗﻤﯿﺺ ﮐﺎ ﮐﻮﻧﺎ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﺋﮯ ‘ ﭘﻤﭗ ﺳﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻧﯿﺎﺯ ﺑﭩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﻖ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺟﺎﺗﯽ ” ﺑﭽﻮ ﺁﺅ ﭼﯿﺰ ﻟﮯ ﻟﻮ ” ﺍﻭﺭ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻢ ﻏﻔﯿﺮ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ تھا-
ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﮑﭧ ﺍﻭﺭ ﺩُﮐﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ‘ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ‘ ﺑﮩﺎﻧﮯ ‘ ﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﮭﯽ ‘ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﻭﻗﺖ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔
ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﭽﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺑﮯ ﺣﻘﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺟﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮐﮭﮯ۔
ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﻟﯿﭗ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮭﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﻨﮑﮭﺎ ﺳﺨﺖ ﮔﺮﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮨﻮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﻟﯿﮑﻦ … ﭘﮭﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ۔ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔
ﻣﻨﺠﻦ ﺳﮯ ﭨﻮﺗﮫ ﭘﯿﺴﭧ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﮩﺘﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﻟﯽ ﮨﮯ ‘ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﮩﻮﻟﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮨﻤﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﮈﺑﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ‘  ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ‘ ﺳﺮﺩﺭﺩ ‘ ﺑﻠﮉ ﭘﺮﯾﺸﺮ ‘ ﻧﯿﻨﺪ ﺍﻭﺭﻭﭨﺎﻣﻨﺰ ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ

اب تو وہ صحن میں سونے کے
سب دور ہی بیت گئے
منجیاں بھی ٹوٹ گئیں
رشتے بھی چھوٹ گئے
بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت مفادات اور خود غرضی میں کھو گیا۔
کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل بے حس زمانہ آ گیا۔
لیکن اج کا جینیریشن جب ان باتوں کو سنتا یا دیکھتا ہے تو وہ اسے جہالت کا نام دیتا ہے۔۔۔کیونکہ ان لوگوں نے یہ دور اپنی زندگی میں محسوس ہی نہیں کی ہے ۔۔تو اس کی قدر کیسے ہوگی۔۔۔۔۔۔
یہ تو ہم ہے جو اج بھی یہ حسرت دل میں بٹھائے ہیں کہ۔۔
“کاش کے وہ جہالت پھر لوٹ آئے ”
کیونکہ
ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔ ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔ کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانیال کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ددیال کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔
یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔
ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو ۔ جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑ دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔
جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوں کیونکہ باقی جاہل خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔
مک کوٹائی( مکئی) ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔
کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔
اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ۔۔
دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے انکی اپنی اولاد ہو ۔۔
اتنے جاہل تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔
لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور تھا کچھ پڑھی لکھی باشعور جنریشن کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔
وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق ہے ۔
اب انسان کی پہچان انسان نہ تھی برداری تھی قبیلہ تھا پھر قبیلوں میں بھی ٹبر تھا ۔
اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔ اب ہر کوئی دست و گریباں تھا اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ زمانے کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔
اب گھر تو کچھ پکے اور اور بڑے تھے لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گے ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا پیٹ چیر کر غلہ اگتا تھا جس کی خوشبو سے لطف لیا جاتا تھا اب نفرت کی بنیاد بن چکی تھیں ۔
شعور جو آیا تھا اب ہر ایک کو پٹواری تحصیلدار تک رسائی ہو چلی تھی اور پھر اوپر سے نظام وہ جس کا پیٹ بھرنے کو ایک دوسرے سے لڑنا ضروری تھا ۔
اب نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی تھیں ہم اپنی وہ متاع جسے محبت کہتے ہیں وہ گنوا چکے تھے ۔ اب انسانیت اور مسلمانیت کا سبق تو زہر لگنے لگا تھا اب تو خدا بھی ناراض ہو چکا تھا ۔
پھر نفرتیں اپنے انجام کو بڑھیں انسان انسان کے قتل پر آمادہ ہو چلا تھا ۔ برتری کے نشے میں ہم گھروں کا سکون تباہ کر چکے تھے ہم بھول چکے تھے کہ کائنات کی سب سے بڑی برتری تو اخلاقی برتری ہوتی ہے ۔
اب اخلاق سے ہمارا تعلق صرف اتنا رہ چکا تھا کہ صرف ہمارے گاوں کے دو بندوں کا نام اخلاق تھا لیکن ہم نے ان کو بھی اخلاق کہنا گوارہ نہ کیا ایک کو خاقی اور دوسرے کو منا بنا دیا ۔۔۔
اب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے کی وجہیں ڈھونڈنے میں لگے تھے ۔ پھر قدرت نے بھی معاف نہ کیا اس نے بھی ہمیں موقع دے دیا ۔
مار دھاڑ سے جب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو بات قتل پر آ گئی ۔ اب ایک تسلسل سے یہ عمل جاری ہے ۔ اب تو ہم اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بن گے ۔ اب شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا جس دن عدالتوں میں ہمارے گاؤں کا کوئی فرد کھڑا نہ ہو ۔
ایف آئی آر اتنی ہو چکی کہ اب ڈھونڈنا پڑتا ہیکہ کیا ہمارے گاؤں کا کوئی ایسا فرد بھی ہے جس پر کوئی کیس نہ ہو ۔
اب ان جاہل بزرگوں میں سے کم ہی زندہ ہیں جو زندہ ہیں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ان میں سے اگر کوئی مرتا ہے تو دوسرا اس کا منہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہے لیکن ہم باشعور لوگ اسے یہ جاہلانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس سے ہماری توہین کا خدشہ درپیش ہے ۔۔
ان نفرتوں نے صرف انسان ہی نہیں پانی ، سکول اور مسجدیں بھی تقسیم کر دیں۔ اب تو اللہ کے گھر بھی اللہ کے گھر نہیں رہے ۔
ہر کوئی اندر سے ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی بضد ہے ۔ وہ نفرت کا اعلاج نفرت سے ہی کرنا چاہتا ہے ۔ اب محبت کا پیغام برادری قبیلے سے غداری سمجھا جاتا ہے ۔ اب دعا بھی صرف دعا خیر ہوتی ہے دعا خیر کا ایک عجب مفہوم نکال رکھاہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کر کے اس کیساتھ مکمل بائیکاٹ کا نام دعا خیر رکھ دیا گیا ہے ۔
لیکن ۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ؟
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم آج بھی سنبھل جائیں اپنے اندر کی ساری نفرتیں مٹا کر دوسرے کے حق میں دعا کرنے کی کڑوی گولی کھا لیں ۔ پھر ممکن ہے اللہ بھی معاف فرما دے اور ہم اس نفرت کی آگ سے نکل آئیں تاکہ کوئی بچہ یتیم نہ ہو کسی اور کا سہاگ نہ اجڑے کسی اور کی گود خالی نہ ہو ۔ تاکہ ہم زندگی جیسی قیمتی نعمت کو جی سکیں اس کائنات کے حسن سے لطف اندوز ہو سکیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کر سکیں کہ وہ شعور ، عمل و کردار کی ان بلندیوں پر جائیں کہ وہ خوبصورت جہالت پھر لوٹ آئے جس نے انسانوں کو اعلی اخلاق کے درجے پر کھڑا کر رکھا تھا

Facebook Comments