انمول لوگ………!!!

امجد عثمانی
خدا گواہ ہے کہ زندگی میں کبھی لاکھ نہیں مانگے ،اللہ سے جب بھی مانگا ،کوئی اچھا شعر ہی مانگا ہے”…پنجابی کے بڑے شاعر جناب بابا نجمی نے “دل کی بات” کرکے” دل کے تار” ہلا دیے…بیٹھے بیٹھے کتنے ہی درویش منش لوگ یاد آگئے…تصوف کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم صوفی مجلس عمل کے دفتر میں کھانے کی میز پر بابا جی اور ہمارے بزنس مین دوست میں دلچسپ مکالمہ کبھی نہیں بھولے گا….”روپے پیسے” کی اہمیت پر بحث کو سمیٹتے ہوئے بابا جی کہنے لگے ہم سادہ مزاج لوگ ہیں…جب ہمارا ایمان ہے کہ جتنی زندگی لکھی ہے اتنی ہی رہے گی تو پھر کیا گوشت کھانے سے میری عمر زیادہ اور دال کھانے سے کم ہو جائے گی؟اگر نہیں تو مجھے کیا پڑی ہے میں بڑے لوگوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنے ضمیر کو ہی مار دوں….عزت ہے تو سب کچھ ہے……
میں نے کئی سال پہلے لاہور پریس کلب میں بیٹھے منفرد کالم نگار جناب تنویر عباس نقوی سے پوچھا کہ کالم کیوں نہیں لکھ رہے تو انہوں نے جواب دیا کہ الفاظ بھوک میں اترتے ہیں…آج کل میرے پاس اچھے خاصے پیسوں والی نوکری ہے…کیا کروں کچھ سوجھتا ہی نہیں…ایک قومی اخبار کے ایڈیٹر بنے تو میں نے کہا رکشے پر آتے ہیں ،اب تو گاڑی لے لیں …بولے اس سے کیا فرق پڑتا ہے… میں پیدل بھی ایڈیٹر ہی ہوں…بابا جی بھی اس دن ایسی ہی درویشانہ ترنگ میں تھے…کہنے لگے اگر مولانا طارق جمیل کی جگہ میں ہوتا تو صدارتی ایوارڈ ٹھکرادیتا… جیسے محترمہ فہمیدہ ریاض کی بیٹی نے واپس کر دیا….بولے مجھے میری پنجابی شاعری کی وجہ سے لوگوں نے جو احترام دیا ہے اس سے بڑھ ایوارڈ کیا ہو سکتا ہے….؟؟؟ بابا نجمی اور تنویر عباس نقوی ایسے بڑے لوگ ہی ایسی بڑی باتیں کر سکتے ہیں……
صوفی مجلس عمل کے سربراہ پیر محمود الدین فرید گڑھی اختیار خان کی درگاہ خواجہ محمد یار فریدی کے فقیر ہیں…اپنے بڑوں کی طرح اجلی فکر والے خوش گفتار آدمی ہیں…وہ چاہتے ہیں کہ خانقاہوں سے کتاب و سنت کی خوشبو آئے اور لوگ من گھڑت خرافات کے بجائے صوفیائے کرام کی تعلیمات کو مشعل راہ بنائیں …کہنے لگے کہ میں تو اپنے مریدوں سے کہتا ہوں کہ ہمیں زیادہ نہ اٹھایا کریں…انسان ہی رہنے دو…ہمارے” اعزازو اکرام” کے بجائے بھوکے کو کھانا اورننگے کو کپڑے پہنائو یہی اصل تصوف ہے…صحافتی کیریئر کے ابتدائی ایام میں عامر شفیع مرحوم ہمارے ایسے ہی خود دار رفیق کار تھے…مسلم ٹائون سے علامہ اقبال ٹائون سائیکل پر جاتے…کبھی سائیکل خراب ہوتی تو پیدل ہی دفتر چل دیتے.. . کوئی لفٹ کا کہتا تو شکریہ کہہ کر ٹال دیتے…ان کا دل موہ لینے والا شعر ہے:
میرے منہ میں جھوٹی زباں نہیں
میں…. اس عہد کا انساں نہیں
ہمارے پیارے اخبار نویس دوست جناب میم سین بٹ بھی اسی سکول آف تھاٹ سے ہیں…سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سرخی میں ایک لفظ کم یا زیادہ ہو جائے… زندگی بھی اسی طرح نظم سے گذار رہے ہیں…ایک مرتبہ تنخواہ زیادہ لگ گئی تو خود کہہ کر کم کرادی کہ اتنے پیسے اضافی ہیں . ..
شکرگڑھ کالج میں ہمارے بیالوجی کے استاد پروفیسر مقصود صاحب اور پروفیسر مسعود صاحب بھی اسی قبیلے کے آدمی ہیں…سادہ سے کپڑوں میں ملبوس گردن جھکائے پیدل ہی گھر سے کالج اورکالج سے گھر جاتے…کوئی احساس برتری نہ احساس کمتری…کسی سے مناظرہ نہ مجادلہ… اپنے کام سے کام …اپنے پیریڈ سے پڑھانے کی پیاس نہ بجھتی تو زیرو پیریڈ کے نام سے بھی کلاس لے لیتے…مقصود صاحب تو ضرورت پڑنے پر انگریزی، فزکس اور کیمسٹری بھی پڑھا دیتے…اردو کی ہینڈ رائٹنگ اتنی خوب صورت تھی کہ کالج کے نوٹس اور ڈیٹ شیٹ بھی وہی لکھ دیتے…زندگی بھر ٹیوشن نہیں پڑھائی …پڑھاتے تو کروڑ پتی ہو جاتے…طالبات کے اصرار پر مفت پڑھا دیتے…کہتے پنکھے پر جتنی بجلی صرف ہوگی وہی فیس ہے…لڑکیاں ایک دو گھنٹے کے دوران استعمال ہونے والی بجلی کی رقم آپس میں تقسیم کرکے دس بیس روپے دے دیتیں …پنجابی میں اردو پڑھانے والے ہر دل عزیز پروفیسر جناب جمیل صاحب نیک نام بھائیوں کی ایمانداری کی گواہی دیتے سماں باندھ دیتے کہ ان کو اگر گھر جاکر پتہ چل جائے کہ کالج سے ایک تنکا کپڑوں سے لگ کر آگیا ہے تو اسی وقت واپس آکر اسے کالج میں چھوڑ کر جاتے …تب کہیں جا کر انہیں سکون ملتاہے…