ھفتہ 20 اپریل 2024

روسی ’جارحیت‘ سے علاقائی تنازعہ شدید ہو سکتا ہے، یوکرائن

پالیسی‘ کییف حکومت کو بھڑکا سکتی ہے اور یہ خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ آندری تاران کا اشارہ یوکرائن کے مشرقی علاقے ڈونباس کی جانب تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ مشرقی یوکرائن کا مسلح تنازعہ بیس فروری سن 2014 میں شروع ہوا تھا اور اس میں اب تک فریقین کے ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

تنازعہ سنگین ہو سکتا ہے
یوکرائنی وزیر دفاع کے مطابق روس الزام لگا رہا ہے کہ مشرقی یوکرائن میں روسی زبان بولنے والے شہریوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور یہی الزام مسلح جارحیت کا سبب بن سکتا ہے۔

آندری تاران کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف ماسکو روسی زبان بولنے والوں کو نظرانداز کرنے کا الزام لگا رہا ہے اور دوسری جانب مسلح کارروائی کا کوئی امکان پیدا کرنے کے لیے مجموعی صورت ‌حال کو گھمبیر کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کریملن کی قیادت ہی جنگی حالات پیدا کرنے کا کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔

یوکرائنی تشویش
یوکرائن کے دارالحکومت کییف میں تشویش پائی جاتی ہے کہ روسی افواج یوکرائن کی روس سے ملحق سرحد پر جمع ہو رہی ہیں اور یہ پیش رفت کسی خطرناک صورت حال کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ کییف حکومت کا خیال ہے کہ روسی افواج کی سرحد پر موجودگی سے مشرقی یوکرائن میں داخلی حالات بھی کشیدہ ہونے کا قوی امکان ہے جبکہ اس کے نتیجے میں ملکی فوج اور علاقائی علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو سکتی ہیں۔ یوکرائنی سکیورٹی مبصرین کا خیال ہے کہ پرتشدد حالات سرحد کے ساتھ جڑے ڈونباس علاقے میں پیدا ہوئے تو بھاری تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ممکن ہے۔

روسی دعویٰ
یوکرائنی سرحد پر روسی افواج کی نقل و حرکت سے پیدا خدشات میں کسی ممکنہ جھڑپ کے امکان کو یورپی سفارت کار اور مبصرین رد نہیں کرتے۔ اس صورت حال کے تناظر میں ماسکو حکومت کا کہنا ہے کہ یوکرائنی سرحد پر فوج کا اجتماع جزیرہ نما کریمیا کے حوالے سے کییف حکومت کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔

روسی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ روسی زبان بولنے والی یوکرائنی اقلیت کے خلاف جارحانہ اقدامات سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسی ‘جارحانہ کارروائیوں‘ سے یوکرائنی فوج کے اندر روس مخالف جذبات ابھارنا ہی اصل مخفی مقصد ہے۔ روسی حکومت کے ترجمان نے مشرقی یوکرائن میں خانہ جنگی شروع ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے

امن کوششیں
کریملن حکومت کے ترجمان کا بیان جرمن چانسلر میرکل اور وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کے اس بیان کا ردعمل قرار دیا گیا ہے، جس میں سرحد پر جمع ہونے والی روسی افواج کی واپسی کا کہا گیا تھا۔ انگیلا میرکل نے جمعرات آٹھ اپریل کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت میں بھی سرحدی کشیدگی میں کمی لانے اور اضافی افواج کی واپسی کو اہم قرار دیا تھا۔

اسی طرح امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن اور ان کے فرانسیسی ہم منصب نے بھی روس سے کہا ہے کہ وہ سرحد پر فوج جمع کرنے کا سلسہ ترک کرے۔ ان دونوں وزرائے خارجہ نے کییف حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا عزم بھی دہرایا۔

Facebook Comments