ھفتہ 20 اپریل 2024

مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کے مابین ٹیلی فونک رابطہ

اسلام آباد (دھرتی نیوز)  جمیعت علمائے اسلام (ف) اور حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف کے مابین ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔

تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والے ٹیلیفونک رابطے میں رمضان کے بعد تحریک، ضمنی الیکشن میں حکومت کی غیر مقبولیت پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف نے رمضان کے بعد حکومت مخالف تحریک کو تیز کرنے پر بھی تفصیلی مشاورت کی۔ طلاعات ہیں کہ نوازشریف نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کا معاملہ مولانا پر چھوڑ دیا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ آپ پر پوری طرح اعتماد ہے ہم اب بھی پی ڈی ایم کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں ہونی چاہئیے۔

ن لیگ کے تاحیات قائد کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی اپنے بیان کی وضاحت کر چکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا پی ڈی ایم کو متحد رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت سے بھی رابطے میں ہوں۔ خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم سے استعفوں کے بعد سے ہی مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے مابین رابطوں میں مزید تیزی آئی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کی علیحدگی کے بعد رہنماؤں کو واٹس ایپ گروپ سے بھی نکال دیا گیا تھا ۔ گروپ ایڈمن احسن اقبال نے چار رہنماؤں کو واٹس ایپ گروپ سے بے دخل کیا۔ مسلم لیگ ن نے بھی پیپلز پارٹی کے خلاف سخت رویہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ مسلم لیگ ن نے بلاول بھٹو کی جانب سے نوٹس پھاڑنے کے عمل پر پارٹی رہنماؤں کو سخت ردعمل دینے کی ہدایت کر دی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا فیصلہ اورپی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کر کے پیپلزپارٹی کو گڈ بائی کہنے کے تجویز دینے پر غورشروع کردیا گیا تھا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی جانب سے موصول ہونے والا شوکاز نوٹس بھی پھاڑ یا تھا جس کے بعد سے پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم جماعتوں کے مابین اختلافات مزید بڑھ گئے اور پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

Facebook Comments