جمعرات 18 اپریل 2024

سیاسی بحران: ‘خبردار کیا تھا افغانستان میں غیرجانبدار صدارتی انتخاب کرانا ناممکن ہے’

سیاسی بحران: ‘خبردار کیا تھا افغانستان میں غیرجانبدار صدارتی انتخاب کرانا ناممکن ہے’

افغانستان میں صدارتی انتخاب کے حمتی نتائج کے بعد ملک میں سیاسی بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

نومنتخب صدر اشرف غنی کے مقابلے میں ان کے دونوں صدارتی حریفوں نے انتخاب کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

اس ضمن میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ ‘میں نے پہلے ہی لوگوں کے ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ موجودہ حالات میں شفاف اور غیر جانبدار صدارتی انتخاب کرانا ناممکن ہے اور اس کے نتیجے میں بحران پیدا ہوگا اورامن کا عمل بھی متاثر ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے تمام سماجی اور سیاسی قوتوں کے اتحاد کے لیے بھی زور دیا کہ وہ امن کے حصول کے لیے مل کر کام کریں اور اسی کو اہم ترین مسئلہ تصور کریں۔

حامد کرزئی نے کہا کہ یہ عمل جو انتخابات کے نام پر ہمارے عوام پر مسلط کیا گیا وہ ایک غیر قومی عمل تھا اور جمہوری اصولوں اور اقدار کے منافی تھا جس میں توقع سے کہیں کم ٹرن آؤٹ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔

خیال رہے کہ ناکام ہونے والے صدارتی امیدوار اور اشرف غنی کے سیاسی حریف عبد اللہ اللہ نے نتائج کے اعلان کے بعد یکطرفہ کامیابی کا اعلان کردیا۔

 انہوں نے فتح کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی ایک جامع حکومت کا اعلان کریں گے۔

دوسری جانب ناکام ہونے والے دوسرے صدارتی امیدوار رحمت اللہ نبیل نے نتائج کو ‘فراڈ’ اور ایسے ‘جمہوریت کی موت کا دن’ قرار دیا۔

رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ ‘فراڈ کے نتیجے میں بننے والی حکومت ناقابل قبول ہے’۔

انہوں نے ‘مفاہمت پر مبنی حکومت’ تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔

رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپنے عہدوؤں سے الگ ہوجائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں اپنے اقتدار سے سبکدوش ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘انتخابات کو تحلیل کردیا جانا چاہیے اور طالبان کو آ کر ملک گیر جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ ہم مفاہمت کی حکومت کے قیام کی طرف گامزن ہوسکیں جہاں ذاتی اور انفرادی مفادات نہ ہوں’۔

علاوہ ازیں اقوام متحدہ مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) نے صدارتی انتخاب کے نتائج پر کہا کہ یو این اے ایم اے نے افغان انتخابی حکام کو ممکنہ مدد فراہم کی۔

یو این اے ایم اے نے اپنے بیان میں کہا کہ انتخابی قوانین غیر جانبدار رویہ اختیار کیا گیا اور فراڈ سے لڑنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گئے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ‘اقوام متحدہ افغانستان کے عوام، اداروں بشمول تما سیاسی جماعتوں کو غیر جابندار اور ماہرانہ رائے فراہم کرتا رہے گا۔

واضح رہے کہ 18 فروری کو افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے گزشتہ برس ستمبر میں منعقدہ صدارتی انتخاب کا حتمی نتیجہ جاری کیا تھا اور اشرف غنی کی کامیابی کا باضابطہ اعلان کردیا جس کے ساتھ ہی وہ دوسری مرتبہ افغانستان کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔

افغان الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ گزشتہ سال 28ستمبر کو ہونے والے انتخاب میں اشرف غنی نے 9لاکھ 23ہزار 592 ووٹ یعنی 50.64فیصد ووٹ حاصل کیے۔

ان کے حریف اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے 7لاکھ 20ہزار 841 ووٹ یعنی 39.52فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

خیال رہے کہ بیلٹ کی گنتی میں تکنیکی مسائل اور دھاندلی کے الزامات کے سبب نتائج ایک عرصے سے التوا کا شکار تھے۔

جنگ زدہ افغانستان 3 کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی والا ملک ہے جہاں 96 لاکھ شہری رائے دہندگان کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوئے جبکہ ملک بھر میں 4 ہزار 900 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔

الیکشن کمیشن کی سربراہ حوا عالم نورستانی نے بتایا تھا کہ 96لاکھ ووٹرز میں سے صرف 18لاکھ نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

طالبان کے حملوں کے سبب انتخابات خوف کے سائے میں منعقد ہوئے جس کے سبب ووٹر ٹرن آؤٹ بہت کم رہا تھا حالانکہ اس کی نسبت 2014 کے انتخابات میں تقریباً 50فیصد افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔

اس سے قبل 2014 کے انتخابات میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے کامیابی کا دعویٰ کیا تھا اور پھر امریکا کے دباؤ پر ایک مشترکہ حکومت قائم کی گئی تھی جس کے بعد اشرف غنی صدر اور عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے۔

یاد رہے کہ صدارتی انتخاب میں اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط آئندہ چند روز میں متوقع ہیں جس کے نتیجے میں ملک سے امریکی افواج کا انخلا ہو جائے گا۔

Facebook Comments