آئی اے رحمان! ایک ترقی پسند صوفی
رحمان صاحب کیا سدھارے کہ یادوں کی براتیں اُمڈ آئیں۔ ترقی پسند فکر کا سَوتا، قلم کا دھنی، درویش صفت، ملنسار اور انسانی حقوق کا پیامبر۔ جو 70 برس تک جہد مسلسل سے کبھی تھک نہ پایا۔ سرسید احمد خان کی عقلیت پسندی اور حسرت موہانی کی اشتراکی روایات کا امین اور علی گڑھ کا گریجویٹ اور بعداز پارٹیشن گورنمنٹ کالج لاہور کے اینگلو سیکشن ماحول میں نکھرا ہوا، بڑا افسر بننے کی بجائے قلم کا مزدور بن گیا۔
ان کی پہلی صحافتی آماجگاہ بنی بھی تو پاکستان پراگریسو پیپرز لمیٹڈ جس کی داغ بیل ایک باغی مسلم لیگی میاں افتخار حسین نے ڈالی تھی اور وہ بھی محمد علی جناح کے دست شفقت سے۔ پاکستان ٹائمز (جس کے بانی ایڈیٹر انچیف فیض احمد فیض اور ایڈیٹر مظہر علی خان تھے) ان کی پہلی صحافتی تربیت گاہ بنا۔ جہاں روزنامہ امروز میں صوفی تبسم ، مولانا غلام رسول مہر اورمولانا چراغ حسن حسرت جیسے بلند پایا مدیران کے ساتھ ساتھ علم و ادب و سیاست کی ایک کہکشاں جمی تھی جن میں احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، عبدﷲ ملک، ظہیر بابر، حمید جہلمی، حمید اختر، امجد حسین، صفدر میر (زینو)، شفقت تنویر مرزا، ابن انشا، منو بھائی، احمد بشیر اور ہفت روزہ لیل و نہار میں صوفی تبسم سے لے کر سبط حسن جیسے ممتاز مصنف، ادیب اور فلسفی شامل تھے۔
نوجوان رحمان کو اس سے اعلیٰ پائے کا ماحول کہاں مل سکتا تھا۔ ان کی فکری، قلمی اور صحافتی صلاحیتیں خوب رنگ لائیں۔ پراگریسو پیپرز لمیٹڈ پاکستان میں ترقی پسند نظریات، پیشہ ورانہ مہارت اور جمہوری و انسانی حقوق کا سب سے اثر انگیز پلیٹ فارم تھا۔ پاکستان میں خیالات کی مہذبانہ جدوجہد میں ان اخباروں کے مدیر، کالم نویس اور صحافی پیش پیش تھے۔ پاکستان جمہوری ہو یا آمرانہ، ملائیت ہو یا روشن خیال، وفاق ہو یا وحدانیت، سرمایہ دارانہ استحصال ہو یا عوام کی معاشی نجات، غرض ہر موضوع پہ ترقی پسند زعما نے اپنا انقلابی کردار ادا کیا۔پراگریسو پیپرز لمیٹڈ کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بننا قبول کیا اور ایک جعلی راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض اور کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری سجاد ظہیر دھر لیے گئے۔
کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین سمیت تمام ترقی پسند محاذوں پر پابندی لگادی۔ یہ امریکہ میں جاری میکار تھی ازم کا شاخسانہ تھا جس کی لپیٹ میں پاکستان کابایاں بازو بھی آگیا۔
یہی وہ دور تھا جب رحمان صاحب مارکس وادی ہوگئے اور عمر بھر اشتراکی جمہوری روایات کے امین رہے۔ ترقی پسند تحریک میں چینی روسی اختلافات میں الجھنے کی بجائے وہ پاکستان میں جاری جمہوری، عوامی اور ترقی پسند جدوجہد سے جڑے رہے اور بطور صحافی صحافت کی صف اول کو سنوارتے رہے۔
انہیں بڑا دھچکا تب لگا جب جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگا اور پی پی ایل پر ریاست نے قبضہ کر کے اسے نیشنل پریس ٹرسٹ میں بدل دیا۔ اس شب خون کے مصنف قدرت ﷲ شہاب تھے۔ یہی زمانہ تھا جب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (PFUJ) مقابلے میں اتری اور رحمان صاحب بھی آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کا جھنڈا لیے میدان میں اترے۔ وہ عمر بھر آزادی صحافت اور آزادی اظہار سمیت شہری، انسانی، معاشی، سیاسی، صنفی ، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کے روح رواں رہے۔
جب مشرقی پاکستان میں فوج کشی ہوئی تو رحمان صاحب اور کچھ حریت پسندوں نے فوج کشی کی مخالفت کی اور ابتلاؤں کا سامنا کیا۔ اس اثنا پراگریسو پیپرز کی بحالی کے لیے تحریک چلی جس میں اس کی یونٹ کے صدر صفدر میر اور رحمان پیش پیش تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے رحمان صاحب کو پاکستان ٹائمز کا ایڈیٹر تو لگادیا، لیکن وہ اور عزیز صدیقی اپنی ہی دھن میں لگے رہے۔ پھر اسلامی جمہوری اتحاد کی نواز شریف حکومت نے پراگریسو پیپرز کا تیا پانچا کردیا۔ مظہرعلی خان ،رحمان صاحب اور میرے استاد ظفر اقبال مرزا(زم) نے لاہور سے ویو پوائنٹ ویکلی کا آغاز کیا جہاں سب باغی صحافی اکٹھے ہوگئے جن میں حسین نقی اور راقم الحروف بھی شامل تھے۔ پھر رحمان صاحب اور عزیز صدیقی نے عاصمہ جہانگیر کے ساتھ مل کر ہیومن رائٹس کمیشن کو ایشیا میں چوٹی کا انسانی حقوق کا ادارہ بنادیا۔
اب صحافت کے ساتھ ساتھ رحمان صاحب پاکستان میں انسانی حقوق کے بڑے مبلغ اور محافظ کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے سینکڑوں رپورٹیں، ہزاروں مضامین اور کتابچے لکھے۔ چونکہ ان کا من انسان دوستی اور امن و آتشی سے بھرا تھا انہوں نے کامریڈ تپن بوس اور ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ مل کر پاک بھارت دوستی برائے جمہوریت اور امن کے محاذ کی بنیاد رکھی۔
وہ سافما کے بانیوں میں سے بھی تھے۔ ساری زندگی یہ بزرگ درویش ایک جمہوری، ترقی پسند اور انسان دوست معاشرے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے ﷲ کو پیارا ہو گیا۔ پورا برصغیر ان کی رحلت پر غمزدہ ہے۔ ان پر ہر دو جہاں کی رحمتیں!
Facebook Comments