جمعہ 29 مارچ 2024

کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز: ٹوئٹر ٹرینڈز میں ’طلبہ کو بچاؤ‘ کا مطالبہ

پاکستان میں کورونا سے زیادہ متاثر شہروں میں چند روز قبل نویں تا بارہویں کلاس کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس دوران جہاں بورڈز امتحانات کے لیے تاریخوں کا اعلان ہوا وہیں نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرل سینٹر نے وبائی صورتحال کی سنگینی پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔

19 مئی سے بورڈ امتحانات شروع ہونے کی اطلاعات اور وبا میں تیزی کی خبروں کے بعد طلبہ سوشل میڈیا کو استعمال کر کے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے امتحانات کے انعقاد کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

وفاقی و صوبائی وزرائے تعلیم نے اپنے گزشتہ اجلاس میں 19 اپریل سے ملک بھر میں نویں تا بارہویں کلاس کا تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس موقع پر یہ بھی کہا گیا تھا کہ بورڈز امتحانات وسط مئی کے بعد ہوں گے۔

تعلیمی عمل شروع ہونے کے چند روز بعد ہی نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے 20 اپریل کو یہ تنبیہہ کر ڈالی کہ ’آئندہ چند روز احتیاط نہ کی تو بڑے شہر بند کرنے پڑیں گے‘۔
حکومتی اعلانات و اقدامات اور تشویشناک وبائی صورتحال کو سوشل میڈیا پر زیربحث لانے والے طلبہ انہی تضادات کو بنیاد بنا کر کہیں امتحانات کی منسوخی اور کہیں اپنی زندگیوں کی حفاظت کے لیے فوری مگر درست اقدامات کے خواہاں ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تعلیمی عمل سے متعلق درجن بھر ٹرینڈز میں لاکھوں ٹویٹس کے ذریعے ٹوئٹر صارفین امتحانات کے التوا کے مطالبے کو نمایاں رکھے ہوئے ہیں۔


وبائی صورتحال میں سٹوڈنٹس اور ان کے اہلخانہ کی صحت سے متعلق تشویش اور تعلیمی عمل متاثر رہنے کے باوجود امتحانات کرانے پر حکومتی اصرار کے بعد کچھ افراد عدالت بھی پہنچے ہیں۔ جہاں وہ قانون کی طاقت استعمال کر کے امتحانات کے التوا سے متعلق اپنے مطالبے پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔
عدالتی فیصلے سے متعلق خوش امید کچھ ٹویپس نے ’پارٹی ٹائم ہے، آؤ خوشی منائیں‘ کا نعرہ لگایا تو ’امتحانات ملتوی کر کے طلبہ کو بچاؤ‘ کا ہیش ٹیگ سجانا بھی نہیں بھولے۔


امتحانات کا معاملہ عدالت پہنچنے سے بہتری کی توقع رکھنے والے کچھ صارفین انتظار نہ کر پائے تو عدالت کو مخاطب کر کے ’مجھے امتحان نہیں دینا ہے‘ کی میم کے ذریعے اپنا مطالبہ دہراتے رہے۔


وزرائے تعلیم کو مینشن کر کے شکوہ کیا گیا کہ ’خود تو وبائی صورتحال کی وجہ سے آپ لوگ اپنی میٹنگز میں گھروں میں بیٹھ کر آن لائن کر رہے ہیں اور سٹوڈنٹس کی زندگیوں کو امتحانات کے ذریعے خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘ ایسے میں کچھ ٹویپس نے اپنے مطالبے کو ٹاپ ٹرینڈ بنتا دیکھ کر اطمینان محسوس کیا تو میمز کے ذریعے اس کا اظہار بھی کیا۔


اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں زیرتعلیم طالبہ نے وبائی صورتحال میں تعلیمی عمل اور سٹوڈنٹس میں صحت سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری ایک کلاس فیلو سکول کھلنے سے پہلے بیمار ہوئی تو ٹیچر نے انہیں گھر پر رہنے کا کہا، پہلے انہیں نمونیہ ہوا پھر کورونا وائرس کا شکار ہوئیں، اس کے بعد ان کے گھر کے سارے لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا۔ اب پھر سکول کھلے ہیں تو ہمیں سنیچر کی چھٹی بھی نہیں ہو رہی، روزانہ کلاس ہو رہی ہے اور ہر روز ہی کوئی نہ کوئی سٹوڈنٹ اپنی فیملی میں کورونا مریضوں کی موجودگی کی بات بھی کرتی رہتی ہے۔‘
اقصی اور ان کی ہم جماعت طالبات ان ہزاروں سٹوڈنٹس میں شامل ہیں جنہوں نے 19 اپریل سے سکول جانا شروع کیا ہے۔
اسی دوران وزیرتعلیم شفقت محمود نے ایک ٹی وی انٹرویو میں طلبہ کی کثرت کے باعث ’میٹرک و انٹر کے امتحانات کو مشکل‘ مانا تو انسٹاگرام اور ٹوئٹر کے کچھ صارفین کو امید بندھی کہ شاید حکومت خود بھی التوا کا فیصلہ کر ڈالے۔


میٹرک و انٹر کے ساتھ یونیورسٹی سطح کے سٹوڈنٹس بھی ٹرینڈز کا حصہ بن کر کہیں لفظوں تو کہیں تصاویر کے ذریعے اپنی صورتحال بتاتے رہے۔


جامعات میںں زیرتعلیم افراد کے پاس سہولیات ہونے یا ان کی کمی کی صورت میں ممکنہ نتائج پر بات ہوئی تو کچھ ٹویپس کا خیال تھا کہ وبا ختم ہونے پر افسردہ نتائج سامنے آئیں گے۔


طلبہ و طالبات کی جانب سے امتحانات کے التوا سے متعلق مطالبہ اور اس کے لیے دی گئی دلیلیں اتنے تواتر سے سامنے آئیں تو دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ اہل سیاست بھی اس پر گفتگو کیے بغیر نہ رہ سکے۔
ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے اپنی ٹویٹ میں وبائی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے اس دوران امتحانات منعقد کرنے پر ممکنہ صورتحال کا نقشہ کھینچا تو اسے غیرمحفوظ آپشن قرار دیا۔


وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے وبائی صورتحال کے گزشتہ جائزہ اجلاس کے بعد کی گئی گفتگو میں بتایا تھا کہ پاکستان بھر میں 50 لاکھ سے زائد طلبہ نے آئندہ چند ہفتوں میں کیمبرج اور مقامی بورڈز کے تحت امتحانات دینے ہیں۔

Facebook Comments