جمعہ 29 مارچ 2024

عارضی زندگی اور اعمال صالحہ

پیر ڈاکٹر علی رضا بخاری

زندگی عمل کے لیے ہے ، اخلاص اچھے عمل کا سبب ہے اور ہمارا امتحان اس عمل میں ہے۔ اگر زندگی نہ ہوتی تو عمل کا موقع نہ ملتا اور اگر آخرت نہ ہوتی تو محاسبہ نہ ہوتا۔ لہٰذا امتحان کے بعد اس کا نتیجہ یا تو اس آزمائش میں کام یاب ہونا ہے یا ناکامی کا منہ دیکھنا ہے۔ دنیا “دارالعمل “یعنی عمل کا گھر ہے اور آخرت دارالبدل ہے۔ دنیا دارالفنا اور خاتمے کا گھر ہے اور آخرت دارالبقاء ہے۔ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور آخرت دارالسُرور یعنی خوشی کا گھر ہے، اسی حدیث پاک میں دنیا کو آخرت کی کھیتی بھی قرار دیا گیا ہے۔

عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 40 کروڑ ڈالرقرض کی منظوری دیدی
دنیا کی نعمتیں اور ان نعمتوں سے مستفید ہونا دائمی نہیں عارضی ہے، یعنی ابتدائے افزائش سے ہی موت کی یاد دلائی گئی ہے۔ آخرت منزل اور دنیا سفر ہے۔ آخرت قیام اور دنیا راستہ ہے۔ آخرت مقصد اور دنیا مقصد کے حصول کے لیے واسطہ اور وسیلہ ہے۔

امام غزالیؒ نے فرمایا ہے : ’’ یہ دنیا عالم خواب ہے اور انبیائے علہیم السلام اس خواب کی تعبیر دینے والے ہیں اور اس تعبیر کا جھوٹ و سچ تم کو بیدار ہونے کے بعد معلوم ہوگا۔ اﷲ رب العزت بادشاہ ہے۔ دنیا کی مثال روٹی ہے، شیطان کتّا ہے۔ کتّا تم سے روٹی پر لڑ رہا ہے، پس تم پر لازم ہے کہ روٹی کتّے کی طرف پھینک دو اور بادشاہ کی ملاقات کو ضروری سمجھو۔‘‘

اسلامی تعلیمات کو نصاب سے نہیں نکالا جا سکتا : چوہدری پرویز الہٰی
امام غزالیؒ مزید فرماتے ہیں : ’’ موت سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑھ کر حادثہ ہے کیوں کہ اس سے زیادہ ہولناک بات مخلوق نے نہیں دیکھی ہے۔‘‘

موت کے وقوع اور طاری ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔موت ایک اٹل حقیقت اور ہر نفس کا یقینی اور قطعی انجام ہے۔ سورۃ الحجر میں ارشاد خداوندی کا مفہوم: ’’اور بندگی کیے جا اپنے رب کی، جب تک آئے تیرے پاس یقین۔‘‘

مفسرین نے یہاں یقین کو موت کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی جب تک آئے تمہارے پاس موت۔ موت اتنی اٹل، بے شک و شبہ اور قرار واقعی حقیقت تھی کہ اس کی جگہ لفظ یقین لایا گیا۔ سورۃ المدثر آیت نمبر47 میں بھی موت کو یقین کے لفظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے ایک میّت کی نسبت فرمایا: ’’ اس کو یقین (موت) آئی مجھے اس کے لیے اچھے انجام کی امید ہے۔‘‘

سعودی عرب نے پاکستان سمیت کئی ممالک پر سفری پابندیوں میں اضافہ کردیا
دو مرحلے ہر ذی روح کے لیے ہیں، مفہوم: ’’ موت و حیات اﷲ کی طرف سے ہے تاکہ تمہیں جانچے کہ تم میں سے بہ لحاظ عمل کون بہت اچھا ہے۔ ‘‘ (سورۃ الملک)

زندگی موت کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک باطنی احساس۔ ہم جب موت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ایک فراق نظر آتی ہے، بہ ظاہر ایک جدائی اہل و عیال، عزیز و اقارب، مال و متاع سے، لیکن یہ موت کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ اس کا یہ ہے کہ یہ ذریعہ ہے اپنے خالو سے وصال و ملاقات کا اور بہ ظاہر موت ایک فنا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک انتقال ہے، ختم ہونا نہیں ہے۔ مردے کو کپڑا پہنایا جائے تو اسے کفن کہتے ہیں لیکن اگر یہ کپڑا ایک زندہ انسان پہنے تو اس کو لباس کہتے ہیں۔

فرانسیسی سفیر کی ملک بدری، جمعیت علما ئے اسلام ف نے بھی بڑا اعلان کردیا
رسول الثقلین ﷺ نے فرمایا ہے، مفہوم: جب مرنے والا مر جاتا ہے تو فرشتے پوچھتے ہیں کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے۔ اور لوگ پوچھتے ہیں کہ اس نے پیچھے کیا چھوڑا ہے؟

حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ نے قرآنی علوم کو جن پانچ بنیادی ابواب میں تقسیم کیا ہے، ان میں ایک موت اور موت کے بعد کے واقعات کی یاد دہانی قرآن پاک کے پانچ بنیادی مضامین میں سے ایک اہم موضوع ہے۔ یا یہ کہ یہ قرآنی علوم کا پانچواں حصہ ہے۔ اس لیے موت کی یاد مومنانہ زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ مرنے سے پہلے موت کی کیفیت کا تصوّر اور حساب سے پہلے حساب کی باریکی کا تصوّر دراصل ’’موت کی تیاری موت سے پہلے‘‘ ہے جس کو مراقبۂ موت کہتے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟
قرآن پاک کے ساتھ احادیث کثیرہ میں لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ صحابہ کرامؓ کو ہر وقت موت کا تصوّر رہتا تھا۔ وہ حضرات اپنے آپ کو اور ایک دوسرے کو ہر وقت اس کی یاد دلاتے تھے۔

حضرت عمر فاروقؓ جو عشرہ مبشرہ میں سے اور خلیفۂ دوم تھے لیکن اپنی انگوٹھی مبارک میں یہ نقش کندہ تھا: ’’ موت بہ ذات خود ایک نصیحت کرنے والی چیز ہے۔‘‘

ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم موت کو یاد رکھیں کیوں کہ اگر موت ایک حقیقت ہے تو عمل اور تیاری کے ساتھ اس تلخ حقیقت کو خوش گوار بھی بنایا جاسکتا ہے۔

کالعدم مذہبی تنظیم پر پابندی ہٹانے کا کوئی وعدہ نہیں کیا ، پیر نورالحق قادری نے دوٹوک انداز میں بتادیا
سوال یہ ہے کہ ہم سب نے قبر اور آخرت کے لئے کیا تیاری کی ہے؟اسلئے پورے شوق کے ساتھ ان امور کا اہتمام کیجئے:-فرائض کااہتمام، محبت رسول میں ڈوب کر سنت رسول کی اتباع ،ذکر الہی کی کثرت کرنا ، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کثرت درود وسلام کا اہتمام کرنا ،نوافل کی کثرت ، خفیہ صدقات کی ادائیگی، ہر اچھا عمل اپنانا ، دُکھی انسانیت کی خدمت ،رات کے پچھلے پہر تہجد میں اللّه تعالی کے سامنے کھڑے ہو کر عاجزی کرنا۔خلوص دعاوں میں مشغول رہنا الغرض اللہ تعالی اور اس بندوں کے حقوق کی پاسداری کی پوری کوشش کرنا۔

اگراپنی زندگی میں ان امور کے بارے میں ہم اپنے اپ کو دوسروں کو یاد دہانی کرا دی تو ہمیں س کابدلہ قیامت کے دن میزان حسنات میں بھاری ملے گا۔

مرنے کے بعد انسان تمنا کرے گا کہ کاش میری زندگی کچھ اور لمبی ہوتی تو میں اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ کرتا۔ یہ اسلئے کہ اس نے اخرت میں دن صدقہ کا عظیم اجر و ثواب دیکھا، تو زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنا چاہیے حدیث پاک میں ہے کہ بہتر صدقہ وہ ہے جو رمضان المبارک میں کیا جائے ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ صدقہ کے ذریعے اپنی بیماریوں کا علاج کرو۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی زندگیوں کو با مقصد کاموں میں لگانے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔آمین..

Facebook Comments