جمعرات 25 اپریل 2024

میں اس کے ساتھ گھر پہنچا تو اس کی بیوہ بہن فرش پر اپنی کو کھ پرہاتھ رکھے بیٹھی تھی اور درد سے تڑپ رہی تھی۔

بہت عرصہ بعد میری ملا قات میرے بچپن کے دوست عرفان سے ہو ئی جو کہ کچھ دن پہلے ہی کراچی سے آیا ہوا تھا عرفان کا چہرہ ہمیشہ کی طرح خوشی سے چمک رہا تھا میں نے زندگی میں کبھی اسے اداس نہیں پا یا وہ ایسا شخص ہے کہ جو غم میں بھی کہکہے لگا تا ہے کافی ساری با تیں کی ہم نے بچپن کی باتیں کر تے کر تے اس نے اچانک سے ہمارے گاؤں کی ایک عورت کا ذکر کیا کہ کچھ دن پہلے اس کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی میں اس عورت کو ذاتی طور پر جانتا تھا گاؤں میں جہاں دیکھتی سلام کر تی تھی ۔چونکہ میرے والد ہمارے گاؤں کی ایک اچھی شخصیت ہیں اور وہ سارے گاؤں میں اپنی شرافت اور سخاوت کی وجہ سے جانے جا تے ہیں ۔

وہ عورت میرے والد اور چچا کی وجہ سے میری عزت افزائی کیا کر تی تھی حالانکہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا اس عورت کا سن کر کافی دکھ ہوا میں اس عورت کی صحت کے مطلق سوالات کرنے لگا عرفان سے کے اب وہ کیسی ہے؟ ڈاکٹر نے کیا کہا؟ یہ سب اچانک سے کیسے ہوا؟ اس عورت کو بیماری کون سی ہے بھلا؟ میں نے اپنے ذہن میں ا س عورت کے متعلق سوالات کی ایک لمبی فہرست بنا لی اور اس عورت کو لے کر کچھ سوالات پو چھے اور کچھ پوچھنے والا ہی تھا کہ عرفان نے اپنی جیب میں سے سگ ریٹ نکالی اور ہونٹوں میں س گریٹ رکھ کر کہنے لگا صبر کر تجھے سارا قصہ بیان کر تا ہوں ماچس اٹھا کے دے میں نے ماچس دی اس نے سگ ریٹ سلگانے کے بعد ایک بہت گہرا کش لگا یا اصل ہوا یوں تھا۔

کہ اس دن میں جیسے ہی گھر پہنچا اپنے والدین اور گھر والوں سے ملا قات ہو ئی اور سفر سے تھک کر پوری طرح سے چ و ر ہو چکا تھا اس لیے میں جلدی ہی سو گیا اگلے دن شام کو تم سے ملنے کے بہانے تمہاری دکان پر چلا آ یا تم تو نہیں تھے۔ تقریباً آٹھ سال پہلے اس فانی دنیا سے کوچ کر چکے ہیں یہ سنتے ہی ڈاکٹر کے منو اوسان ہی خطا ہو گئے ہوں وہ کچھ دیر بالکل خاموش کھڑا رہا ایک بے جان کی طرح پھر ہماری طرف حیرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا اور دھیمے سے لہجہ میں بو لا کہ وہ عورت حاملہ ہے ہمارے تو پاؤں کے نیچے سے ریشمی چادر کی طرح منو کسی نے زمین سر کا کے کھینچ لی ہو۔ وقار ڈاکٹر کے پاؤں پر گر پڑا اور رو ت ے ہو ئے کہنے لگا کہ کسی بھی طرح سے یہ بچہ گرادیں آپ اس عورت کا جوان بیٹاجو نش ے میں تھا۔

اب اس کے سارے نش ے ختم ہو چکے تھے جہاں پر کھڑا تھا وہی سر پر دونوں ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا با لکل ننھی پریاں پیدا ہو تی رہیں گی کہ جن کے والد کا نام کسی کے علم میں بھی نہیں اچھا اب کہا ہے وہ ننھی پری میں بھی اس ننھی پری کو دیکھنا چاہتا ہوں عرفان کے خوشی سے چمکتے ہوئے چہرے پر ما ت م تاری ہو گیا اس عورت کی والدہ با ہر سہن میں پڑی چارپائی پر بیٹھی سلائی کر رہی تھی میں اس کے قریب گیا سلام کیا اور اس ننھی پری کے متعلق پو چھا تو اس نے بتا یا کہ وہ ننھی پری تو م ر چکی ہے میرا بیٹا وقار اور اس کا نش ئی بھا نجھا اسے دفن انے کےلیے ق ب ر ستان گئے ہیں پتہ نہیں کہاں رہ گئے کم بخت صبح سے گئے ہو ئے ہیں۔

Facebook Comments