جمعہ 29 مارچ 2024

سات آسمانوں سے لے کر سات جنموں تک عدد 7 کی کرشمہ سازی

چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کُھل گئے
یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں
شعر اردو کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کا ہے، نظم کا عنوان ’روٹیاں‘ ہیں، کہتے ہیں جب روٹی پیٹ میں جاتی ہے تو پھولے نہیں سماتی، اور جو ’نان جویں‘ سے محروم رہ جاتے ہیں ان کے چود طبق روشن ہوجاتے ہیں۔
روٹی اور اس کی ہم جنس انواع کاک، کلچہ، نان، تافتان، شیرمال، پراٹھا وغیرہ پر ہم پہلے بھی لکھ آئے ہیں، سرِدست ’چودہ طبق‘ سے بحث مطلوب ہے کہ اگر یہ روشن ہوجائیں تو بندہ برسوں کا ’گیان‘ لمحوں میں پاجاتا ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سنسکرتی لفظ گیان (ज्ञान/jJAna) اردو کے ’جان/جانن‘ اور انگریزی لفظ Known کی اصل ہے، سنسکرت میں ’گیان‘ کے پہلے لفظ کی آواز جیم اور گاف کی درمیانی آواز ہے، مخصوص وجہ کی بنیاد پر اس آواز کا ادا کرسکنا ہمارے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ’گیان‘ کے بیان پر ندا فاضلی یاد آگئے جن کا کہنا ہے:

وہ صوفی کا قول ہو یا پنڈت کا گیان
جتنی بیتے آپ پر اتنا ہی سچ مان
اب محاورے ’چودہ طبق روشن ہونا‘ کی بات کرتے ہیں۔ اس محاورے کے معنی میں بصیرت پیدا ہونا، عقل و فراست بڑھ جانا، روشن ضمیر ہونا کے ساتھ ساتھ ہکّا بکّا رہ جانا، حیران ہو جانا اور تعجب میں پڑجانا شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ طبق کیا ہے؟ اور یہ چودہ ہی کیوں ہیں، کم یا زیادہ کیوں نہیں ہیں؟

’طبق‘ اور ’طباق‘ عربی زبان کے الفاظ ہیں جس کے معنی تھالی، سینی، خوان اور بڑی رکابی کے ہیں، پھر جیسے باغ سے باغچہ ہے ایسے ہی اس عربی لفظ سے فارسی قاعدے کے مطابق ’طبق‘ سے ’طبقچہ‘ بنالیا گیا ہے، جس کے معنی چھوٹی تھالی یا رکابی کے ہیں، اور جو ان طباق کو دسترخوان پر سجانے، اٹھانے یا دھونے پر مامور ہو وہ ’طبقچی‘ کہلاتا ہے۔

چونکہ طباق عام طور گول ہوتی ہے یوں اس رعایت سے بھدی صورت، گول منہ اور بھرے بھرے چہرے کو بھی ’طباق چہرہ‘ کہتے ہیں۔ دیکھیں خدائے سخن میر تقی میر کیا کہہ گئے ہیں:
کس رُو سے اس کے ہوگا تو نقطے سے مقابل
اے آفتاب تیرا منھ تو طباق سا ہے
’طبق‘ سے لفظ ’مطابقت‘ بھی ہے جس کے معنی ایک چیز کے اوپر اس کے مساوی دوسری چیز رکھنا ہے، اسی سے ’طَابَقتُ النَّعل‘ کی ترکیب بنی ہے، جس کے معنی کسی کے نقش قدم پرچلنا ہے، پھر ’طباق‘ کا لفظ اس چیز سے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جو دوسری کے اوپر ہو اور کبھی اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دوسری چیز کے ’مطابق‘ ہو، یوں لفظ ’مطابق‘ بھی طبق کا ہم ریشہ بن جاتا ہے۔
’طبق‘ کے معنی میں کسی بھی چیز کا ڈھکن،خطہ، قطعہ اور تختہ کے علاوہ ’درجہ‘ بھی شامل ہے، اسی لیے درجہ اور درجات کے مترادفات ’طبقہ‘ اورطبقات بیان ہوئے ہیں۔
لفظ طبقہ اوراس کی جمع طبقات اردو میں عام استعمال ہوتے ہیں جب کہ عربی کی رعایت سے ان الفاظ پر مشتمل بہت سی تراکیب بھی اردو زبان کے دامن میں سما گئی ہیں، مثلاً طبقہِ اعلیٰ، طبقہِ ادنیٰ یا غریب طبقہ، متوسط طبقہ، طبقات الارض،طَبقاتی کَشمَکَش یا طبقاتی جنگ وغیرہ۔ اب ’طبقاتی جنگ‘ کا ذکر ’سلیم کوثر‘ کے شعر میں ملاحظہ کریں
چھڑ جائے تو طبقات کی اب جنگ سلیمؔ
کچھ بھی ہو مگر ہم کو نہ زحمت دی جائے

اب ’چودہ طبق‘ کی بات ہوجائے، آسمانوں کے سات طبقات کو قرآنی الفاظ ’سَبعَ سَمٰوٰت طِبَاقا‘ یعنی ’اوپر تلے سات آسمان‘ سے سمجھ سکتے ہیں، پھر آسمانوں کی طرح زمین کے بھی سات طبقات تسلیم کیے گئے ہیں، یوں یہ سات آسمان اور سات زمینیں مل کر ’چودہ طبق‘ بنتے ہیں، جس کا روشن ہوجانا محاورے میں استعمال ہوتا ہے۔
سات زمین و سات آسمان کی رعایت سے عرض ہے کہ ’سات‘ کے عدد میں عجب رمز ہے، یہی وجہ ہے کہ عربی، فارسی، اردو اور ہندی کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہے، پہلے انگریزی کی مثال سے سمجھیں کہ اس میں عدد ’7‘ کو ناصرف ’لکی نمبر‘ تصور کیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس میں تقدیس کا رنگ بھرنے کے لیے افقی لائن کا اضافہ کردیا جاتا ہے، نتیجتاً سادہ سا ’7‘ مقدس صلیب ’7‘ میں بدل جاتا ہے۔
قرآن میں جس طرح ’سَبعَ سَمٰوٰت‘ یعنی سات آسمانوں کا ذکر ہے، ایسے ہی ’سَبْعَةُ أَبْحُر‘ یعنی سات سمندروں کا بیان بھی ہے، بعض اہل علم کے مطابق یہ سات سمندر بحراخضر، بحرِعمان، بحرِ قلزم، بحرِروم، بحرِ اسود ، بحرِظُلمات اور بحرِ بربر‘ ہیں۔ اسی طرح قرآن میں جہنم کے سات دروازوں کا ذکر ’سَبْعَةُ اَبْوَاب‘ کے الفاظ میں آیا ہے ۔
قدیم زمانے میں روئے ارض کو سات ولایتوں یا ملکوں میں تقسیم مانا جاتا تھا، اس لیے دنیا کو ’ہفت اقلیم‘ اور ’ہفت کشور‘ کہا جاتا تھا، ان سات خطوں یا ملکوں کو سات سیاروں سے نسبت تھی۔ اس ہفت ’کشور‘ کو دنیا کے معنی میں علامہ اقبال کے ہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے:
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ وتفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

فارسی ہی کی رعایت سے اردو میں ’ہفت امام، ہفت سلطان، ہفت الوان (سات کھانے)، ہفت اندام وغیرہ کی تراکیب بھی لائق توجہ ہیں۔
یہ تو عربی اور فارسی کی بات تھی، اب ہندی میں بھی ’سات‘ کی کرشمہ سازی ملاحظہ کریں، مثلاً ہندو عقیدے میں ’سات جنم‘ کا تصور یا منت پوری ہونے پر’سات اناج‘ کا پکانا قابل ذکر ہے، اس ’سات اناج‘ میں ’گیہوں، دھان، جَو، باجرہ، مکئی، جوار اور چنے‘ شامل ہوتے ہیں، پھرعورتوں کا ’سات سنگھار‘ ہے جو ’مہندی، سُرمہ، پان، مِسّی، چَوٹی، چوڑی اور افشاں‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ’سات سُر‘ بھی لائق بیان ہیں جو’کھرج ، رکھب ، گندھار ، مدھم ، پنچم ، دھیوت ، نکھاد‘ کہلاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ’سات‘ کا یہ قصہ طولانی ہے اس کا مفصل بیان کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں فی الوقت ’سات سُروں‘ کی رعایت سے ’ایوب خاور‘ کا شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں:
سات سُروں کا بہتا دریا تیرے نام
ہر سُر میں ہے رنگ دھنک کا تیرے نام

Facebook Comments