جمعہ 19 اپریل 2024

گھر کے بھیدیوں نے کس طرح اسلام آباد کی لنکا ڈھائی؟

گھر کے بھیدیوں نے کس طرح اسلام آباد کی لنکا ڈھائی؟

2 دن کی بارش سے جب راولپنڈی دھل کر نکھر چکا ہو، اتوار کا دن ہو، مارچ کا مہینہ ہو، شام کا وقت ہو اور کرکٹ کے چاہنے والوں سے میدان بھرچکا ہو تو یہ سب کچھ کتنا خوبصورت لگتا ہے نا۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں پنڈی کے میدان میں کراچی اور اسلام آباد یعنی دونوں ہی ٹیمیں گزشتہ میچ کی شکست کا بوجھ اٹھائے ہوئی تھیں۔ دونوں کے سامنے بہت سارے سوالات تھے جن کے جواب تلاش کرنا تھے۔ اسلام آباد کا مسئلہ باؤلنگ میں ناتجربے کاری تھا جس کے حل کے لیے ڈیل اسٹین پہنچ چکے تھے۔ کراچی کا مسئلہ اپنے وسائل کا درست استعمال تھا۔

تو چلیے آئیے دیکھتے ہیں یہ دونوں ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوئے۔ میچ کی طرف جانے سے پہلے ایک دلچسپ اتفاق بیان ہوجائے کہ کراچی کی ٹیم کے ابتدائی 6 بیٹسمین اسلام آباد یونائٹڈ کی طرف سے کھیل چکے ہیں۔ کراچی کے دونوں بڑے کوچ یعنی وسیم اکرم اور ڈین جونز بھی اسلام آباد کے کوچ رہ چکے ہیں۔ یعنی گھر کے بہت سے بھیدی کراچی کو دستیاب تھے۔

اسلام آباد اننگز

ٹاس جیتو اور مخالف کو بلے بازی کی دعوت دے دو۔ اس پی ایس ایل میں ٹیموں کو بڑا ہی سادہ سا فارمولا مل چکا ہے۔ خاص کر رات والے میچوں میں تو سارا دار و مدار ہی جیسے ٹاس پر آچکا ہے۔ اگرچہ یہ تھوڑا تکلیف دہ پہلو ہے تاہم منتظمین کے پاس اس کا کوئی معقول حل موجود نہیں۔

کراچی نے بھی آج یہی کیا اور ٹیم بغیر کسی تبدیلی کے میدان میں اتار دی۔ اسلام آباد نے رضوان حسین اور ڈیل اسٹین کو میدان میں اتارا، جبکہ عماد بٹ اور ڈیوڈ میلان کو جگہ خالی کرنا پڑی۔

کولن منرو خوش قسمت ہیں کہ انہیں مسلسل مواقع مل رہے ہیں حالانکہ ڈیوڈ میلان ان سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ تاہم 4 غیر ملکی کرکٹرز کی شرط والی تلوار کسی ایک پر تو چلنا ہی تھی۔

اس میچ میں کولن منرو ایک بار پھر ناکام ہوئے۔ پاکستان سپر لیگ میں اکثر بڑے ناموں کی طرح منرو بھی اب تک اپنی چمک نہیں دکھا سکے۔ اسلام آباد کو ان کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ لیوک رونکی اگرچہ بہت خطرناک بیٹسمین ہیں مگر اچھی باؤلنگ دیکھ کر انہوں نے اس میچ میں اپنا ہاتھ روکا اور شروع میں بہت احتیاط سے شاٹ لگاتے نظر آئے۔ انہوں نے اپنے مزاج کے برخلاف بُرے گیند کا انتظار کیا اسی لیے وہ ایک لمبی اننگز کھیلنے میں کامیاب بھی ہوگئے۔

رضوان حسین جنہیں پچھلے سیزن میں اسلام آباد نے ڈومیسٹک ٹی20 کی شاندار پرفارمنس کی بنیاد پر منتخب کیا تھا اور جب وہ اچھا نہ کھیل سکے تو بعد میں ڈراپ کردیا۔ لیکن اب ایک لمبے انتظار کے بعد انہیں موقع ملا اور انہوں نے نسبتاً عمدہ کھیل پیش کیا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب وہ سیٹ ہونے کے بعد لمبی اننگ کھیلنے کی پوزیشن میں آئے تو انہوں نے اپنی وکٹ بڑے شاٹ کھیلنے کے چکر میں ضائع کردی۔ لیکن ایسا کرنا بھی ضروری تھا کیونکہ ایک اینڈ سے رونکی محتاط انداز میں کھیل رہے تھے، اس لیے کسی کو تو بڑے شاٹس کے لیے جانا ہی تھا۔

دراصل یہ عمر خان کی بہترین باؤلنگ کا کمال تھا جس نے انہیں اس غلطی پر اکسایا۔ پی ایس ایل سیزن 4 کے بہترین اسپنر عمر خان کو اس سیزن میں پہلی مرتبہ موقع پچھلے میچ میں ملا تھا، لیکن حیران کن طور پر کھلانے کے باوجود انہیں عماد وسیم نے باؤلنگ نہیں دی، اور وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ ملتان کے پاس زیادہ تر بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے بیٹسمین ہیں اور ہوا کا رخ بھی پریشان کررہا تھا اس لیے انہوں نے ایسا کیا، لیکن اس فیصلے پر تمام ہی حلقوں میں بہت زیادہ تنقید کی گئی تھی۔

لیکن اسلام آباد کے خلاف انہیں ٹیم میں جگہ بھی ملی اور باؤلنگ بھی دی گئی اور انہوں نے اپنی شاندار باؤلنگ سے کپتان عماد وسیم کو کیا ہی خوب جواب دیا۔ پہلے ہی اوور کی چوتھی گیند پر نا صرف وکٹ لی بلکہ وکٹ بھی بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے کی لی۔

عمر خان ٹی20 فارمیٹ کے دیگر باؤلرز سے یوں بھی مختلف ہیں کہ وہ تیز تیز گیند پھینک کر صرف رنز روکنے کی فکر نہیں کرتے بلکہ وکٹ کو پڑھ کر اپنی لینتھ، گیند کی رفتار اور لائن ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ وہ دلیر ہیں اور بیٹسمین کو بڑے شاٹ کھیلنے پر اکساتے ہیں۔

ویسے کراچی کی انتظامیہ بھی بڑی دلچسپ ہے جس نے پہلے تو ایسے ہیرے کو باہر بٹھائے رکھا اور جب کھلایا تو درست استعمال نہیں کیا۔ ان کی جگہ جنہیں استعمال کیا گیا انہوں نے ہر میچ میں 40 سے زیادہ رنز دیے۔

اب جب ایک اور بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے کولن انگرام وکٹ پر آئے تو انہیں بھی عمر خان نے کھل کرنے کھیلنے نہیں دیا۔ یہ ابھی گزشتہ ہفتے کی تو بات ہے جب انگرام نے سمیت پٹیل کی شاندار دھلائی کی ہے۔ پھر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار عماد وسیم کے آخری اوور میں ایک چھکا اور چوکا لگاکر بخوبی کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اسی اوور کی آخری گیند پر آؤٹ ہوگئے۔

اننگز کے پہلے 9 اوورز تک اسلام آباد والے اننگ کی تعمیر میں ہی الجھے رہے۔ رونکی بھی محتاط تھے اور 10ویں اوور کے اختتام پر اسلام آباد کا اسکور 77 رنز تھا اور رونکی 29 گیندوں پر صرف 33 رنز ہی بناسکے تھے، لیکن پریشانی اس لیے نہیں تھی کہ اگر وہ آخر تک کھڑے رہے تو اس سست بیٹنگ کی کمی کو پورا کردیں گے، اور انہوں نے بہت حد تک یہ کر بھی لیا۔

شاداب خان ایک بار پھر اوپر آئے اور وہی کیا جو اس ٹورنامنٹ میں وہ کرتے آئے ہیں یعنی بہترین بلے بازی۔ شاداب کی بیٹنگ میں بہت بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ سوشل میڈیا پر شائقین واہ واہ کرتے نظر آئے تو کچھ نے تو امید ظاہر کی کہ اگر بہتری اسی طرح جاری رہی تو شاید شاداب کی صورت ہمیں ایک اور اسٹیون اسمتھ مل جائے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ خوش امیدی کی معراج ہی ہے۔ تاہم ان کی بیٹنگ کی افادیت خوب ہے۔

انہوں نے کریز پر آتے ہی اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔ انہوں نے جب تیز کھیلنا شروع کیا تو رونکی کی بھی کچھ ہمت بندھی۔ بس پھر دونوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ شاداب نے تو 4 شاندار چھکے بھی لگائے اور اس سیزن میں اپنی دوسری نصف سنچری بھی مکمل کی۔