جمعہ 03 مئی 2024

قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کالعدم قرار، رہائی پانے والوں کی دوبارہ گرفتاری کا حکم

قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کالعدم قرار، رہائی پانے والوں کی دوبارہ گرفتاری کا حکم

سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس سے قیدیوں کی رہائی سے متعلق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی پیش کردہ سفارشات کو تسلیم کرتے ہوئے سندھ، اسلام آباد ہائی کورٹ سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹس سے رہا ہونے والے تمام قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا بھی حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں فوری گرفتار کیا جائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان مندوخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ ہائی کورٹس کی جانب سے قیدیوں کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: نجی اداروں کے ملازمین کے لیے اہم ہدایات

سپریم کورٹ نے عدالت عالیہ سے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے خلاف دائر درخواست کو دفعہ 184(3) کے تحت قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سنگین جرائم، نیب اور منشیات کے مقدموں میں دی گئی ضمانتیں بھی منسوخ کردیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ملک میں کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والی غیر معمولی صورتحال کے پیشِ نظر 408 قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

مذکورہ فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات سے 829 قیدیوں میں سے 519 رہا ہوچکے ہیں۔

قیدیوں کی رہائی کا معاملہ
خیال رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث اڈیالہ جیل میں موجود معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی جیل کے قیدیوں میں وائرس پھیل گیا تو بہت مشکلات ہو جائیں گی، ابھی تک صرف چین ہی اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور چین میں بھی 2 جیلوں میں وائرس پھیلنے کے بعد معاملات خراب ہوئے تھے‘۔

مزید پڑھیں: بابر اعوان مشیر برائے پارلیمانی امور مقرر، نوٹیفکیشن جاری

بعدازاں 24 مارچ کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر 408 قیدیوں کی ضمانت پر مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ چیف کمشنر، آئی جی پولیس اور ڈی جی اے این ایف مجاز افسر مقرر کریں اور تمام مجاز افسران پر مشتمل کمیٹی کے مطمئن ہونے پر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس ملزم کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ باہر نکل کر معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، اسے ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ احکامات کے بعد سید نایاب حسن گردیزی نے راجہ محمد ندیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکوٹ (آئی ایچ سی) کے دائرہ اختیار میں ازخود نوٹس شامل ہے؟

اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم اختیارات کے منافی ہے کیونکہ یہ خالصتاً ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے تناظر میں زیر سماعت قیدیوں کے معاملے پر نظر ثانی کرے۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق پٹیشن پر سماعت کرنے کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا کہ جس کے تحت ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو زیر سماعت قیدیوں (یو ٹی پی) کو ضمانت دے دی تھی۔

جس کے بعد 30 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے تمام ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ سمیت متعلقہ حکام کو یکم اپریل تک نوول کورونا وائرس کے باعث زیر سماعت قیدیوں کی جیلوں سے رہائی یا اس سلسلے میں کوئی بھی حکم دینے سے روک دیا تھا۔

بعدازاں یکم اپریل کو اس کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے صوبائی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے تمام نئے قیدیوں کی اسکرینگ کرنا لازمی قرار دیا تھا۔ ‏

Facebook Comments