جمعہ 26 اپریل 2024

گلیوں میں پھرتی موت

گلیوں میں پھرتی موت

2020 بھی عجیب سال ہے، اِس سال نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے، معاشرتی فاصلے قائم کرنے والے اِس ایک سال کو خوف سے لبریز سال کے طور پر یاد کیا جائے گا، کورونا جیسے وبائی مرض کے باعث دنیا پریشان ہے، یہ مرض پندرہ لاکھ سے زائد افراد نگل چکا ہے۔ 

یہ آدم خور مرض تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، ملکوں کے ملک وحشت کا شکار ہیں، کورونا گلیوں میں موت بن کر پھیلا ہوا ہے گویا انسانوں کو گلیوں میں پھرتی ہوئی موت کا سامنا ہے، بہت سے ملکوں میں انسان قیدی بن کے رہ گئے ہیں اور جہاں قیدی نہیں بنے وہاں سماجی فاصلوں نے زندگی کا حسن چھین لیا ہے۔ 

اِس سال سیاحت ختم ہو کر رہ گئی، ہوٹل، ریسٹورنٹ، کلب اور شادی ہال سب لمبی چوڑی محفلوں سے محفوظ رہے، یہ سب مقامات رونقوں کو ترستے رہے، کورونا کے باعث کئی ملکوں میں فیکٹریاں بند اور متعدد کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں، یہ سال روزگار یا کاروبار کے حوالے سے بڑا ماٹھا رہا۔ 

فضائی کمپنیوں کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا، کورونا نے دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا، کورونا نے ہر قسم کے کاروبار کو متاثر کیا، اگرچہ ہر حکومت اپنے شہریوں کا احساس کر رہی ہے مگر اِس کا منفی اثر معیشت پر پڑ رہا ہے۔ 

پاکستان میں بھی احساس پروگرام کے تحت نچلے طبقے کا خیال رکھا جا رہا ہے، حفاظتی تدابیر بھی بتائی جا رہی ہیں، ہمارے ہاں برطانیہ یا دوسرے ملکوں کی طرح قید خانے بھی نہیں ہیں مگر ہمارے لوگ اِس مرض کو سنجیدہ نہیں لے رہے ۔ 

اس لاپروائی کے طفیل ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ابھی دو روز پہلے 75افراد موت کے منہ میں چلے گئے، کورونا کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لوگوں یہ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کورونا کی پہلی لہر جب ہمارے ہاں آئی تھی تو گرم موسم استقبال کر رہا تھا پھر قدرت کی خاص مہربانی سے ہم بڑے نقصان سے بچ گئے۔ 

دنیا ہماری معترف ہو گئی، ہمارے ہاں کورونا سے بچنے کیلیے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی تھی، وہ کامیاب رہی، پہلی لہر کے دوران لوگوں نے حفاظتی تدابیر کا بھرپور خیال رکھا تھا مگر…

مگر صاحبو!

کورونا کی دوسری لہر بہت خطرناک ہے، اِس لہر میں کورونا نے اپنی ہیئت تبدیل کر رکھی ہے، اِس بار کورونا ٹیسٹ کو نہیں مان رہا کیونکہ بہت سے لوگوں کا ٹیسٹ منفی آیا مگر ان میں کورونا تھا۔ 

ویسے تو ہمارا لائف اسٹائل (طرز زندگی ) ایسا ہے کہ ہمارے ہر فرد کو کورونا چھو کر ضرور گزرے گا، پاکستان کا امیر ترین طبقہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے کیونکہ اُن کے سب کام تو نوکر کرتے ہیں، وہ خود احتیاط برت بھی لیں تو ملازمین کے ذریعے کورونا پہنچ جائے گا۔ 

دوسری لہر بہت خطرناک ہے، اِس لہر کے سامنے سرد موسم ہے، ابھی سے اسپتال بھر چکے ہیں، ہمارے ہاں صحت کے حوالے سے مضبوط نیٹ ورک نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

دنیا کے وہ ملک بھی مات کھا گئے جن کے ہاں بہترین اسٹرکچر تھا، جو لوگ خدا کے انکاری تھے وہ خدا کو پکارنے پر مجبور ہوئے، انہوں نے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کردیا، ہماری معیشت اور ہیلتھ انفراسٹرکچر کمزور ہے۔ 

سو اِن حالات میں ہمارے لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا، ہمیں اجتماعات سے پرہیز کرنا ہو گا، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کے لیے سربسجود ہونا چاہیے۔ 

ویکسین کی نوید کئی ملکوں نے سنائی ہے، برطانیہ، روس اور چین نے ویکسین تیار کر لی ہے، پاکستان نے بھی چین کی مدد سے ویکسین تیار کی ہے مگر جب تک ویکسین دستیاب نہیں ہوتی، اس وقت تک گلیوں میں رقصاں ہوئی موت سے بچنا ہو گا۔ 

خوف کی لہر میں لپٹی ہوئی موت امیر غریب کا فرق نہیں دیکھتی نہ ہی گورے کالے کا فرق محسوس کرتی ہے، ہم روزانہ جنازے پڑھ رہے ہیں، روزانہ فاتحہ خوانیاں کر رہے ہیں، ہمارے کئی قریبی ہم سے بچھڑ گئے ارشد وحید چوہدری چلے گئے، سردار جاوید ایوب کے والد سردار ایوب بھی کوچ کر گئے۔ 

آزاد کشمیر کے سابق وزیر مطلوب انقلابی بھی موت کے سامنے زندگی ہار گئے، ہمارے پیارے راوین ظفر اللہ جمالی بھی موت کےسامنے بے بس ہو گئے، ہمارے ایک اور پیارے فرخ حیات پنوں بھی منوں مٹی تلے جا بسے۔

فرخ حیات پنوں بڑے دل جگرے والے انسان تھے، ان کی خوبیوں کی گواہی ساجد گورایہ نے بھی دی ہے، کورونا کے بے بس موسم میں حسن بیگ کی نظم ’’معصوم خواہش‘‘ یاد آ رہی ہے کہ

یہ قیامت ہےیا قربِ قیامت کی نشانی ہے کہ وہ ملنے سے پریشاں ہے

ہاتھ ملانے سے گریزاں ہے

رکھ کے جو سوتا تھا

مرے ہاتھ پہ رخسار

مرے رخسار پہ ہاتھ

یہ شومئی قسمت ہے

کہ بدبختی ہے کہ وہ منہ چھپائے

تھامے ہوئے سانسوں کو کہیں

در دیدہ نگاہوں سے مجھے تکتا ہے

کہتا ہے

’’چند روز اور مری جان

فقط چند ہی روز …‘‘

(مظہر برلاس)

Facebook Comments