ھفتہ 27 اپریل 2024

موسم سرما میں کے ٹو کی تسخیر

کے ٹو

لحاف لپیٹے، آگ تاپتے یا پھر دھوپ سینکتے۔۔۔۔ان دنوں عین اس وقت جبکہ آپ سرد موسم میں حدت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو یہاں سے سینکڑوں میل دور برفانی معبد کی چوٹی تلے دس افراد برف میں دبکے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ ایک ایسی تاریخ جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔

یہ وہ کوہ پیماء ہیں جو دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کےٹو کو موسمِ سرما میں سَر کرنے نکلے ہیں۔ ایک ایسا کام جو آج تک کوئی نہیں کر پایا۔ پچھلی اور حالیہ صدی میں اب تک بیسیوں لوگ اس مہم کو سر کرنے نکلے لیکن ناکام واپس لوٹے۔ کوہ پیماؤں میں “خونخوار پہاڑ” کے نام سے مشہور کےٹو دنیا کی آٹھ ہزاری چوٹیوں میں سے واحد چوٹی ہے جسے آج تک موسمِ سرما میں سَر نہیں کیا جا سکا۔ حالیہ مہم بھی شش و پنج کا شکار ہے۔ ابتداء میں 60 افراد پر مشتمل اس ٹیم میں سے کئی افراد ہمت ہار کر واپس لوٹ چکے ہیں۔ ایسا کیوں ہے یہ آپ کو اگلی کچھ سطور کے بعد اندازہ ہو جائے گا۔ پہلے کچھ ذکر کےٹو کی عظمت کا۔۔۔۔

قراقرم ٹو، گڈوِن آسٹن، اور شاہ گوری جیسے ناموں سے پہچانا جانے والا پہاڑ کے ٹو، دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے جو سطح سمندر سے 8611 میٹر بلند قراقرم کے سلسلہ ہائے کوہ میں شان سے سر اٹھائے کھڑا ہے۔ یوں تو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ ہے۔ لیکن کوہ پیماؤں کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ کی بجائے کےٹو ہمیشہ سے ہی ایک چیلنج رہا ہے۔ کیونکہ ماؤنٹ ایورسٹ کو ایک سال میں سینکڑوں کوہ پیماء اپنے قدموں تلے روندتے ہیں۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ ایک سال میں تقریباً ایک ہزار کے قریب افراد نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کیا۔ جبکہ دوسری جانب کے ٹو اتنی آسانی سے کسی کو اپنی برفوں پر قدم جمانے نہیں دیتا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ سال 1954 میں پہلی بار سر کیے جانے کے بعد سے اب تک گذشتہ 70 سال میں صرف چار سو کے قریب کوہ پیماء ہی اس کی چوٹی پر پہنچے کا خواب پورا کر پائے ہیں۔ جبکہ ہر چار میں سے ایک کا جسم پہاڑ کی تسخیر کا خواب دل میں لیے برفانی ہرم کے سینے میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔ کبھی واپس نہ لوٹ پایا۔

چند سال پہلے کے ٹو کو سَر کرنے والی ٹیم کے ساتھ ایک ایسا حادثہ پیش آیا جو کوہ پیمائی کی تاریخ کے بدترین حادثوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ جس میں گیارہ کوہ پیماء جان سے گئے۔ جن میں سے اکثر کی لاشیں آج تک کے ٹو کی برفوں میں کہیں مدفون ہیں۔ شاید اسی لیے امریکی کوہ پیماء جارج بیل نے کہا تھا۔۔۔۔۔”کے ٹو ایک خونخوار پہاڑ ہے۔ جو آپ کی جان لینے کے کوشش کرتا ہے”

بتاتا چلوں کہ یہ سب مہمات جن کا اوپر تذکرہ ہوا ہے، موسمِ گرما کے دوران کی ہیں۔ جبکہ موسمِ سرما کی بات کریں تو سردیوں کا موسم اترتے ہی یہ پہاڑ محض خونخوار ہی نہیں بلکہ ناقابلِ تسخیر چوٹی کا روپ دھار لیتا ہے۔ درجہ حرارت منفی 50 درجے سینٹی گریڈ تک گِر جاتا ہے۔ چوٹی کے آس پاس سرد ہوائیں دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی طوفانی رفتار سے چلتی ہیں۔ رفتار کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ پاکستان کی تیزرفتار ترین ریل گاڑی کی رفتار بھی ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کے قریب ہے۔ اتنی شدت سے چلنے والی ہوائیں پتھروں پر جمے سخت قدم بھی اکھیڑ ڈالتی ہیں۔ پھر اس سے بڑھ کر ہمہ وقت ٹوٹتی چٹانیں، لڑھکتے پتھر اور پھسلتے برفانی تودے۔۔۔۔۔ یہ سب ایسے چیلنجز ہیں جنہیں آج تک کوشش کے باوجود کوئی عبور نہیں کر پایا۔ لیکن شاید اب تاریخ بدلنے جا رہی ہے۔

بات کریں خدوخال کی، تو اہرامِ مصر کی مانند آسمان کو چھوتی بلندیوں کے حامل اس پہاڑ کے قدموں میں بیس کیمپ ہے جو بجائے خود سطح سمندر سے پانچ ہزار میٹر بلند ہے۔ اس کے بعد پہاڑ کو چڑھتے ہوئے پہلا پڑاؤ یعنی کیمپ ون 6 ہزار میٹر کی بلندی پر ہے۔ اگلا کیمپ اس سے تقریباً ایک میل اوپر یعنی 6750 میٹر پر ہے۔ “سیاہ ہرم” کو پار کرتے ہی7200 میٹر کی بلندی پر تیسرا کیمپ قائم ہے۔ ان سے اوپر 7600 میٹر کی بلندی پر چوتھا کیمپ ہے۔ جسے چوٹی کا کندھا بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہی وہ کیمپ ہے جہاں آخری اطلاعات تک کوہ پیماؤں کا وفد آج رات گزار رہا ہے۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے وہ مقام جہاں موت کا راج ہے۔ ایک ہموار ستواں ڈھلوان جو دو سو میٹر تک بلند ہے۔ کوہ پیماؤں کی اکثریت اسی مقام پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ اس تنگ گھاٹی کو پار کرتے ہی 8611 میٹر کی بلندی پر پہاڑ کی وہ چوٹی ہے جس پر کھڑے ہو جائیں تو چہار جانب کی دنیا تو کیا پہاڑ بھی ہیچ نظر آتے ہیں۔

مضمون کے شروع میں میں نے جس مہم کا تذکرہ کیا تھا وہ  دنیا کے مختلف ممالک کے 60 کوہ پیماؤں اور شیرپاز پر مشتمل ہے۔ جو کہ تقریباً 4 ٹیمز میں منقسم ہے۔ ان میں سے ایک تین رکنی ٹیم میں پاکستان کے محمد علی سدپارہ اور ان کا بیٹا بھی شامل ہیں۔ نیپالی کوہ پیماء و شیرپا منگما گیالجے و دیگر پر مشتمل ٹیم اس وقت کیمپ چہارم پر موجود ہے۔ اور غالب امکان یہی ہے کل یعنی بروز ہفتہ مقامی وقت کے مطابق دن ایک بجے کے قریب یہ ٹیم ڈھلوانی گھاٹی کو پار کر کے وہ تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جس کا انسانیت کو کئی دہائیوں سے انتظار ہے۔

ہو سکتا ہے جب تک یہ سطور آپ کی نظر سے گذریں تب تک یہ معرکہ سر ہو چکا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آ جائے۔ یا یہ مہم بے نیل و مرام واپس لوٹ آئے۔ کیونکہ اب تک اس میں شامل پانچ افراد شدید زخمی یا پھر مایوس ہو کر واپس لوٹ چکے ہیں۔

ہو سکتا ہے کچھ قاری اس بات پر حیران ہوں کہ آخر اس شدید سرد ترین موسم میں لحاف، یا پھر دھوپ کی حدت چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ یہی سوال ایک معروف کوہ پیماء شاید میسنر سے کیا گیا تو اس کا جواب تھا۔۔۔۔ “کیونکہ وہ وہاں ہیں”

جملے کی گہرائی سمجھنے کی استدعا کے ساتھ تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔ اس امید پر کہ کل کا دن کوہ پیمائی ہی نہیں بلکہ انسانیت کی تاریخ میں بھی ایک یادگار دن ہو گا۔ کیونکہ ارضیاتی تسخیر میں انسان کے باقی بچ جانے والے محض چند ایک چیلنجز میں سے ایک۔۔۔۔۔ یہ بھی ہے کہ کےٹو کو آج تک کوئی بھی سرد موسم میں سَر نہیں کر پایا۔

اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیے گا۔
ندیم رزاق کھوہارا

 

Facebook Comments