بدوکی گوسائیاں کے ‘شری تومڑی صاحب’ کا سنّاٹا
برِّصغیر قدیم دور میں بھی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے اور اسی خطّے میں لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہندو مسلم تہذیب نے جنم لیا۔ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب یوں پروان چڑھی جیسے ایک ہی خاندان میں مختلف خیالات اور مزاج کے افراد مل جل کر رہتے ہیں۔
اس زمانے میں ایک ہی شہر میں مندر بھی تھے اور مساجد بھی۔ انسانی آبادی سے دور ایک ہی مقام جوگی تپسیا کرتے اور صوفی مراقبے میں محو رہتے، جہاں کوئی ان کی عبادت میں خلل نہیں ڈالتا۔ پرندے مندر کے کلس سے اٹھتے اور مسجد کے گنبد پر جا بیٹھتے، مگر اس یک رنگی، بھائی چارے اور میل جول کو مذہبی اور لسانی تفریق، کدروت، سازشوں اور تہذیب و ثقافت میں امتیاز نے ختم کردیا۔ دونوں اقوام کے درمیان دیوار کھڑی ہونے لگی اور وہ وقت آیا جب اس کے نیچے ہندو مسلم ثقافت ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئی، لیکن اس تہذیب کے آثار آج بھی برِّصغیر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ دو اقوام میں بٹ جانے والی زمین پر کہیں مسجدیں ویران پڑی ہیں تو کہیں مندر سنسان ہیں۔ حکومتیں مصلحت کے سبب ان عبادت گاہوں کا فیصلہ نہیں کرتیں۔
گزشتہ برس ایک ایسی مسجد دیکھنے کا اتفاق ہوا جو غیر آباد تھی۔ یہ گوجرانوالہ کے علاقے ایمن آباد میں سکندر لودھی کے دور کی مسجد ہے جس کے قریب آبادی افتادِ زمانہ کی نذر ہوگئی۔
اسی طرح گوجرانوالہ ہی کے علاقے بدوکی گوسائیاں میں گزشتہ ہفتے ایک مندر دیکھا جس کا سناٹا جیسے چیخ چیخ کر پجاریوں اور عقیدت مندوں کو بُلا رہا تھا، مگر وہاں چند ایسے نوجوانوں کے سوا کوئی نہ تھا جو محض تفریح کی غرض سے آئے تھے۔
کسی زمانے میں جب یہ مندر آباد ہوگا تو یہاں ہزاروں دیے روشن ہوتے ہوں گے، سیکڑوں لوگ مناجات کرتے اور منتّیں پوری ہونے پر چڑھاوے دینے آتے ہوں گے۔ اب یہ مندر کھنڈر کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس کی سیاہ دیواروں پر پریمیوں نے اپنے اور اپنی محبوباؤں کے نام کندہ کرکے دلوں میں موجود خواہشوں کے بُت دیواروں پر آویزاں کر دیے ہیں۔ یہ مندر شری تومڑی صاحب کے نام سے مشہور ہے۔
مندر کے چوگرد اشنان گاہ مٹّی، گندگی اور خود رو جھاڑیوں سے بھر چکی ہے جو قسم قسم کے کیڑے مکوڑوں اور دیگر حشرات کا ٹھکانہ ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو یہاں دور تک سبزہ پھیل جاتا ہے۔ یہاں ذرا ہٹ کر ایک جانب حوض بنا ہوا ہے جس کی دیواریں خستہ حال ہیں۔ یہ شاید عورتوں کے لیے مخصوص ہوگا۔ مندر کی اصل عمارت کو دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ یہ زمانے کا سرد و گرم سہنے کے باوجود اپنی جگہ پر اسی طرح قائم ہے۔
مندر کے عقب میں کھجور کے دو درخت ہیں۔ ان درختوں کے ساتھ ہی مسلمانوں کا ایک قبرستان ہے اور یہی اس خطّے کی وہ مشترکہ تہذیب اور ثقافت تھی جنھیں اب پاک و ہند کے ان آثاروں ہی میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس مندر کے شمال کی طرف برگد کا ایک درخت ہے جس کے ساتھ ہی اشنان گاہ کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ ان سیڑھیوں پر میں کافی دیر بیٹھا مندر کے عقب میں ڈوبتے سورج کو دیکھتا رہا۔ مندر کے سامنے سے ایک پکّی سڑک گزرتی ہے جس پر وقفے وقفے سے گزرنے والی گاڑیوں کی آواز مندر کی اس پُراسرار اور طلسماتی فضا کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔
(انعام کبیر)
Facebook Comments