وزیراعظم آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر جناب راجہ محمدفاروق حیدرخان نے امسال 6نومبر کو یوم شہدائے جموں کے سلسلہ میں مرکزی تقریب سیالکوٹ میں منعقد کرنے کا نہایت صائب فیصلہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ تقریب کہیں بھی منعقد کرکے اس کے ذریعے سے ایک جانب شہدائے جموں کے ساتھ اظہارعقیدت کا بھرپورمظاہرہ کیا جاسکتا تھا اور دوسری جانب بھارت کو پیغام بھی بھیجاجاسکتا تھا کہ جس مشن کو شہدائے کشمیر نے شروع کیا تھا، ہم اس کی تکمیل کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں لیکن سیالکوٹ میں اس دن مرکزی تقریب کے انعقاد کا بنیادی ترین مقصد یہ ہے کہ سیالکوٹ کا بھی اس دن کے ساتھ اور اس دن شہید ہونے والوں کے ساتھ ایک خاص اور گہرا تعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ جب 6نومبر1947ء کو ڈوگرہ اور ہندوسپاہیوں اور شدت پسندوں نے جموں میں مسلمان بستیوں پر شب خون مارا اور زندہ بچ جانے والے لوگوں سے کہا کہ جو پاکستان جانا چاہتے ہیں، وہ فلاں گراؤنڈ میں جمع ہوجائیں تاکہ انہیں صبح سویرے لاریوں پر سوار کرواکے سیالکوٹ پہنچادیاجائے۔ مسلمان مردوخواتین، بچوں اور بوڑھوں غرض جس نے بھی یہ اعلان سنا، بھاگم بھاگ گراؤنڈ میں پہنچ گیا جہاں لاکھوں پناہ گزیں مقیم تھے۔ یہ اپنے گھر بار، اپنے مال مویشی، اپنی جائدادیں اور زمینیں، اپنے کاروبار اور جمع پونجی ہرچیز پاکستان جانے کے نام پر چھوڑ کر چلے آئے تھے اور اب انہیں یقین تھا کہ وہ چند گھنٹوں کے سفر کے بعد سیالکوٹ جا اتریں گے جس کے بعد ان کی زندگیاں پاک سرزمین پر نیک لوگوں کے درمیان بسر ہوں گی۔ چناں چہ 6نومبر1947ء کو شہید ہونے والے اڑھائی لاکھ سے زائد مسلمانوں کے دماغوں میں جو آخری لفظ گونج رہا تھا وہ سیالکوٹ ہی تھا اور ان کی آنکھوں میں جس شہر کے نام پر آخری چمک نمایاں ہوئی تھی وہ سیالکوٹ ہی تھا۔ان ہی شہدا کو ان کی آخری منزل کی سرزمین سے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ تقریب سیالکوٹ میں رکھی گئی۔ یہاں سے جموں کی سرحد چند کلومیٹر دور ہے۔ اسی شہر کے دوسری جانب بھارتی سرحد ہے۔ گویا یہاں سے اٹھنے والی آواز بیک وقت جموں اور بھارت میں سنائی دے گی۔
2020-11-04