ھفتہ 04 مئی 2024

قرآن میں عورت کا کردار

قرآن میں عورت کا کردار

ڈاکٹرسمعیہ راحیل قاضی

 

انسان اپنی تخلیق میں ایک اکائی ہے، مگر اس کے کردار مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق فرمایا، پھر اُن سے اُن کا جوڑا بنایا اور اس جوڑے سے بہت سے مرد وعورت دنیا میں پھیلا دئیے۔سورۃ النساء کی پہلی آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔ اُس اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتے داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘قرآنِ کریم میں عورت کو زوج اور صاحبہ کے خُوب صُورت لقب سے نواز کر اُس کی اہمیت بیان کی گئی۔ 

تاریخ شاہد ہے کہ عورت کی سرشت میں اخوّت، ایثار اور ایمان کے جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ عورت ان صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور انہی صلاحیتوں کے اظہار سے قومیں بنتی ہیں۔ سماجی تبدیلیوں اور معاشرے کی ترقّی میں عورت کا کردار زیادہ اہم، مؤثر اور دیرپا اثرات کا حامل ہے۔ ہر مرد، جو انسانی ترقّی کے عروج پر پہنچتا ہے، کام یابی کے لیے اپنی ماں ہی کا مرہونِ منّت ہے۔ اللہ نے اس کائنات میں صرف عورت ہی کو اپنی صفتِ تخلیق عطا کی اور اُسے بلند مقام عنایت فرمایا۔ عورت، اللہ کے لُطف و جمال اور تخلیق کی مظہر ہے۔ اسی لیے شیطان جب بھی کسی سماج کو تباہ کرنا چاہتا ہے، تو وہ اس معاشرے کی عورت کا کردار تباہ کرتا ہے۔عورت معاشرے کا ستون، خاندان کا مرکزِ محبّت اور قوم کا دھڑکتا دل ہے۔قرآنِ کریم میں بھی، جو قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کے لیے آخری آسمانی ہدایت ہے، عورت کا متحرّک کردار نظر آتا ہے۔

بی بی امّاں حوّا ؑ

قرآنِ کریم کے آغاز ہی میں حضرت آدمؑ کے ساتھ امّاں حوّاؑ کا تذکرہ آیا ہے۔دونوں نے ایک ساتھ جنّت میں زندگی بسر کی۔ پھر شیطان کی چالوں کے شکار ہوئے، دونوں نے توبہ کی اور اُنھیں زمین پر اُتارا گیا۔قرآنِ کریم اپنی آیات میں مرد اور عورت دونوں کا یک ساں طور پر ذکر کرتا ہے کہ دونوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور دونوں کو اللہ نے توبہ کا سلیقہ سِکھایا۔’’اور ہم نے کہا ’’اے آدمؑ! تم اور تمہاری بیوی جنّت میں جا کر رہو اور اُس میں جو چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ اور اُس درخت کے نزدیک نہ جاؤ۔ 

ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘(سورۃ البقرہ، 35)۔’’اُس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر اُس نے اُس سے اُس کی بیوی بنائی اور تمہارے لیے آٹھ نر اور مادہ چوپایوں کے پیدا کیے، وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت پر تین اندھیروں میں بناتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا ربّ ہے، اُسی کی بادشاہی ہے، اُس کے سِوا کوئی معبود نہیں، پس تم کہاں پِھرے جا رہے ہو۔‘‘(سورۃ الزمر،6)۔’’ وہ وہی ہے، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ اس سے آرام پائے۔ 

پھر جب میاں نے بیوی سے ہم بستری کی، تو اسے ہلکا سا حمل رہ گیا، پھر اُسے لیے پِھرتی رہی، پھر جب وہ بوجھل ہوگئی، تب دونوں میاں بیوی نے اپنے مالک، اللہ سے دُعا کی کہ اگر آپ نے ہمیں صحیح سالم اولاد دے دی، تو ہم ضرور شُکر گزار ہوں گے۔‘‘(سورۃ الاعراف،189)۔قرآن پاک میں والدین کے ساتھ احسان کا تذکرہ بار بار کیا گیا ہے، مگر والدہ کا الگ سے تذکرہ کرکے ماں کے مقام کو ایک خاص اہمیت دی گئی۔ حضرت ابراہیمؑ کے خاندان کے ذکر میں حضرت ہاجرہؑ کا بہت خُوب صُورت تذکر ہے۔

جب حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ’’ مَیں اپنے اہل وعیال کو ایک بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر آگیا ہوں، تُو اُن کی حفاظت کرنا۔‘‘ اور پھر بی بی ہاجرہ ؑ کے صبر کی دو نشانوں، صفا اور مروہ کو اللہ اپنی نشانیاں قرار دے کر اور ان کے درمیان کی دوڑ کو’’ سعی‘‘ قرار دے کر عمرے اور حج کا لازمی جزو بنا دیتا ہے، تو عورت کو فخر کرنا چاہیے کہ ایک عورت کی جدوجہد کو رہتی دنیا تک کیسے زندہ رکھا گیا۔ جب توانا، مضبوط اور اَنا سے بھرپور مرد سعی کے دَوران سبز ستونوں کے درمیان دوڑ لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں، تو عورت کے باوقار اور بااختیار ہونے کے معنی اور ویمن ایمپاورمنٹ کا عنوان بھی سمجھ آجاتا ہے۔

قرآن پاک میں حضرت ابراہیمؑ کی اہلیہ، حضرت سارہؑ کا بھی ذکر ہے۔ حضرت سارہؑ، حضرت اسحٰق ؑ کی والدہ تھیں۔ قرآنِ کریم میں حضرت یعقوب ؑ کی خوش خبری کا ذکر کیا گیا اور حضرت سارہؑ کی بدولت حضرت ابراہیمؑ کو ’’ابوالانبیاء‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔’’ اور اُس کی عورت کھڑی تھی، تب وہ ہنس پڑی، پھر ہم نے اُسے اسحاقؑ کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوبؑ کی۔‘‘(سورۂ ھود،71)۔’’ پھر اُن کی بیوی شور مچاتی آگے بڑھی اور اپنا ماتھا پیٹ کر کہنے لگی’’ کیا بڑھیا بانجھ جنے گی؟‘‘

(سورۃ الزّاریات،29)

حضرت مریم ؑ اور اُن کی والدہ کا تذکرہ

قرآنِ کریم میں بیس مختلف مقامات پر حضرت مریم ؑکا ذکر موجود ہے۔ اُن کے ذکر سے پہلے اُن کی والدہ کا ذکر آتا ہے کہ زوجۂ عمران نے نذر مانی کہ’’ بیٹا معبد کی نذر کروں گی‘‘، مگر بیٹی پیدا ہو گئی اور تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ ایک بچّی کو معبد کی نذر کردیا گیا۔ اس ایک فیصلے نے تاریخ کا دھارا بدل دیا اور حضرت مریمؑ تولد ہوئیں، جو آنے والے زمانوں کی عورت کے لیے مشعلِ راہ بنیں۔حضرت مریم ؑوہ خوش بخت خاتون ہیں، جن کے نامِ گرامی پر قرآنِ کریم کی پوری ایک سورت ہے۔حضرت مریمؑ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ قرآنِ پاک میں حضرت عیسیٰؑ کا نام اُن کی ماں کے ساتھ آیا ہے، کیوں کہ اُن کے والد تھے ہی نہیں۔ 

حضرت عیسیٰ ؑنے ماں کی گود ہی میں اپنی ماں کی پاکیزگی بیان کی۔’’اور وہ عورت، جس نے اپنی عِصمت محفوظ رکھی، پھر ہم نے اُس میں اپنی رُوح پھونک دی اور اسے اور اُس کے بیٹے کو جہان کے لیے نشانی بنایا۔‘‘(سورۃ الانبیاء،91)۔’’مریم ؑ کا بیٹا مسیح تو صرف ایک پیغمبر ہی ہے، اس سے پہلے اور بھی پیغمبر گزر چُکے ہیں اور اس کی ماں سچّی ہے، وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔دیکھو، ہم اُنہیں کیسی دلیلیں بتلاتے ہیں، پھر دیکھو، وہ کہاں اُلٹے جاتے ہیں۔‘‘(سورۃ المائدہ،75)۔

حضرت مریمؑ جب بیتُ المقدِس کی خدمت میں مصروف رہیں، تو ان کے پاس مختلف بے موسم کے پھل پائے جاتے۔ حضرت زکریاؑ نے یہ پھل دیکھے، تو اللہ سے دُعا کی کہ’’ اگرچہ میری بیوی بانجھ ہے اور مَیں بوڑھا ہو گیا ہوں، مگر تُو اولاد دینے پر قادر ہے۔جس طرح تُو حضرت مریمؑ کو بے موسم کے پھل عطا کر رہا ہے، مجھے بھی اولاد عطا کر دے۔‘‘’’پھر اُسے اُس کے ربّ نے اچھی طرح قبول کیا اور اُسے اچھی طرح بڑھایا اور وہ زکریا ؑکو سونپ دی، جب زکریاؑ اس کے پاس حُجرے میں آتے، تو اُس کے پاس کچھ کھانے کی چیز پاتے۔ کہتے’’ اے مریمؑ! تیرے پاس یہ چیز کہاں سے آئی ہے؟‘‘ وہ کہتیں’’ یہ اللہ کے ہاں سے آئی ہے، اللہ جسے چاہے، بے قیاس رزق دیتا ہے۔‘‘(سورۂ آلِ عمران،36،37)۔’’اور جب فرشتوں نے کہا’’ اے مریم ؑ! بے شک اللہ نے تجھے پسند کیا ہے اور تجھے پاک کیا ہے اور تجھے سب جہان کی عورتوں پر پسند کیا ہے۔اے مریم ؑ! اپنے ربّ کی بندگی کر اور سجدہ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔‘‘( سورۂ آلِ عمران،42، 43)

ملکۂ سباء

ملکۂ سباء ایک نہایت دولت مند، لیکن مشرک قوم کی خاتون حکم ران تھیں۔ اُن کے پاس وہ تمام آسائشیں موجود تھیں، جو کسی بھی انسان کو غرور و تکبّر میں مبتلا کر سکتی ہیں۔ اپنے آبائی دین کو چھوڑنا اُن کے لیے حد درجہ مشکلات کا سبب بن سکتا تھا، لیکن جب حضرت سلیمان ؑ نے اُنھیں حق کی دعوت پیش کی، تو وہ بغیر حیل وحجت ایمان لے آئیں۔ قرآنِ پاک میں اُن کی حکمت و تدبّر اور زیرک ہونے کے مختلف واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ہد ہد نے حضرت سلیمانؑ کو بتایا’’مَیں نے ایک عورت کو پایا، جو اُن پر بادشاہی کرتی ہے اور اُسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کا بڑا تخت ہے۔‘‘(سورۃ النّمل، 23)۔ 

’’پھر جب سلیمانؑ کے پاس آیا، فرمایا’’ کیا تم میری مال سے مدد کرنا چاہتے ہو، سو جو کچھ مجھے اللہ نے دیا ہے، اس سے بہتر ہے، جو تمہیں دیا ہے، بلکہ تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو۔‘‘ (36)۔ ’’اُن کی طرف واپس جاؤ۔ ہم اُن پر ایسے لشکر لے کر پہنچیں گے، جن کا وہ مقابلہ نہ کر سکیں گے اور ہم اُنہیں وہاں سے ذلیل کر کے نکال دیں گے۔‘‘(37)۔ حضرت سلیمانؑ کے اس رویّے کو دیکھ کر اُنھوں نے نفس کی بندگی اور خواہش کی غلامی تَرک کر دی اور اللہ کے حضور جو اب دہی کے احساس سے ایمان لے آئیں۔

حضرت خولہؓ بنتِ ثعلبہ

حضرت خولہؓ بنتِ ثعلبہ کے بارے میں آیات نازل ہوئیں اور صحابہ کرامؓ اُن کی بے حد تکریم کیا کرتے تھے۔ حضرت خولہؓ ، نبی کریمﷺ کے پاس اپنے خاوند کی شکایت لے کر آئی تھیں کہ اُنھوں نے غصّے میں اُن سے’’ ظہار‘‘ کر لیا ہے۔( ظہار، عربوں میں طلاق کا ایک طریقہ تھا کہ بیوی کو کہہ دیتے کہ تُو میرے لیے ماں کی طرح ہے اور وہ بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی)وہ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھی رہیں، حتیٰ کہ اُن کی فریاد سُنی گئی اور’’ ظہار‘‘ کی ممانعت کا حکم نازل ہوگیا اور اس کے کفّارے کی وضاحت بھی کر دی گئی۔ روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عُمرؓ کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک عورت ملی اور اُس نے اُنھیں روکا، تو آپؓ فوراً رُک گئے۔سَر جُھکا کر دیر تک اُن کی بات سُنتے رہے اور جب تک خاتون نے بات ختم نہ کر لی، آپؓ یونہی کھڑے رہے۔ 

ساتھیوں میں سے ایک کے سوال پر فرمایا’’ جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ خولہؓ بنتِ ثعلبہ ہے۔ یہ وہ عورت ہے، جس کی شکایت سات آسمانوں پر سُنی گئی۔ اللہ کی قسم! اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتیں، تو مَیں کھڑا رہتا، بس نمازوں کے اوقات پر اُن سے معذرت کر لیتا۔‘‘جو آیت نازل ہوئی، وہ یہ ہے’’بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سُن لی ہے، جو آپؐ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑتی تھی اور اللہ کی جناب میں شکایت کرتی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سُن رہا تھا، بے شک اللہ سب کچھ سُننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘ (پارہ 28، آیت نمبر ۱)۔

ازواجِ مطہراتؓ

سورۂ نور اور سورۃ الاحزاب میں مسلمان عورتوں کو الگ سے خطاب کر کے احکام دئیے گئے ہیں اور ایک سورت، سورۃ النساء تو عورتوں ہی سے منسوب کر دی گئی۔ اسی طرح سورۃ الطلاق اور سورۃ الممتحنہ میں بھی وضاحت سے عورتوں کو ہدایات دی گئی ہیں۔ 

نیز، سورۃ التحریم میں بھی اُمّہات المومنین کا ذکر آیا ہے۔’’اور جو تم میں سے اللہ اور اُس کے رسولؐ کی فرمان برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی، تو ہم اُسے اُس کا دُہرا اجر دیں گے اور ہم نے اُس کے لیے عزّت کا رزق بھی تیار کر رکھا ہے۔’’‘‘اے نبی کی بیویو! تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی رہو اور دبی زبان سے بات نہ کہو، کیوں کہ جس کے دِل میں مرض ہے، وہ طمع کرے گا اور بات معقول کہے۔‘‘(سورۃ الاحزاب، 31،32)۔

عزیزِ مِصر کی بیوی

اگرچہ سورۂ یوسف میں زیادہ تر مَردوں کا ذکر ہے، مگر حضرت یوسفؑ کی پرورش اور وہاں کی تہذیب وثقافت کے ضمن میں وہاں کی عورتوں کی بے باکی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔’’اور جس نے اُسے مِصر میں خرید کیا، اُس نے اپنی عورت سے کہا،’’ اس کی عزّت کر، شاید ہمارے کام آئے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں‘‘، اس طرح ہم نے یوسفؑ کو اس مُلک میں جگہ دی اور تاکہ ہم اسے خواب کی تعبیر سکھائیں اور اللہ اپنا کام جیت کر رہتا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘(سورۂ یوسف،21)۔’’پھر جب عزیز کی بیوی نے ان کی ملامت سُنی، تو اُنہیں بُلا بھیجا اور ان کے واسطے ایک مجلس تیار کی اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چُھری دی اور (یوسفؑ سے) کہا کہ’’ اُن کے سامنے نکل آ‘‘، پھر جب اُنہوں نے اُسے دیکھا، تو حیرت میں رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور کہا’’ اللہ پاک ہے، یہ انسان تو نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔‘‘(سورۂ یوسف،31)۔

حضرت آسیہ(فرعون کی بیوی)

قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں حضرت آسیہ کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ خوش بخت خاتون کی حیثیت سے تاریخ میں زندہ جاوید ہوگئیں۔’’اور اللہ ایمان داروں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے، جب اُس نے کہا کہ’’ اے میرے ربّ ! میرے لیے اپنے پاس جنّت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالموں کی قوم سے نجات دے۔‘‘ (سورۃ التحریم،11)

حضرت عائشہ صدیقہؓ

حضرت عائشہ صدیقہؓ کی وجہ سے دو دفعہ قرآنِ کریم میں احکام نازل ہوئے۔ ایک دفعہ اُن کے گلے کا ہار ٹوٹا، تو قافلے کو دیر ہوگئی اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمّم کی اجازت مل گئی اور دوسری دفعہ واقعۂ افک میں اُن کی برأت سے متعلق وحی نازل ہوئی۔ پوری دس آیات حضرت عائشہؓ کی پاکیزگی کے بارے میں نازل ہوئیں۔’’اور جب تم نے اسے سُنا تھا، تو کیوں نہ کہہ دیا کہ’’ ہمیں تو اس کا منہ سے نکالنا بھی لائق نہیں، سبحان اللہ یہ بڑا بہتان ہے۔اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسا نہ کرنا، اگر تم ایمان دار ہو۔اور اللہ تمہارے لیے آیتیں بیان کرتا ہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔بے شک، جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان داروں میں بدکاری کا چرچا ہو، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی(تو کیا کچھ نہ ہوتا) اور یہ کہ اللہ نرمی کرنے والا، مہربان ہے۔

اے ایمان والو! شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلے گا، سو وہ تو اُسے بے حیائی اور بُری باتیں ہی بتائے گا اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی، تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے، پاک کر دیتا ہے اور اللہ سُننے والا، جاننے والا ہے۔اور تم میں سے بزرگی اور کشائش والے اس بات پر قسم نہ کھائیں کہ رشتے داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیا کریں گے اور اُنہیں معاف کرنا اور درگزر کرنا چاہیے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔

جو لوگ پاک دامنوں، بے خبر ایمان والیوں پر تہمت لگاتے ہیں، اُن پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔جس دن اُن پر اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے، جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔اُس دن اللہ اُنہیں انصاف سے پوری جزا دے گا اور جان لیں گے، بے شک اللہ ہی حق بیان کرنے والا ہے۔ناپاک عورتیں، ناپاک مَردوں کے لیے ہیں اور ناپاک مرد، ناپاک عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں، پاک مَردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد، پاک عورتوں کے لیے ہیں، وہ لوگ اس سے پاک ہیں، جو یہ کہتے ہیں، اُن کے لیے بخشش اور عزّت کی روزی ہے۔‘‘(سورۃ النّور، 16تا 26)

حضرت موسیٰ ؑ سے وابستہ خواتین کا تذکرہ

قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ ؑ کی نسبت سے اُن کی والدہ، بہن ،قومِ شعیبؑ کی دو بیٹیوں اور فرعون کی اہلیہ، حضرت آسیہ کا تذکرہ ملتا ہے۔حضرت موسیٰ ؑ کو دریا میں پھینکنے کے بعد اُن کی والدہ نے بیٹی کو اُن کے پیچھے جانے کا حکم دیا اور اس معصوم بچّی نے اس کمال کے ساتھ اپنے بھائی کی نگرانی کی کہ فرعون کے محل میں سب کو قائل کر لیا کہ ایک گھرانہ ہے، جس کی خواتین بچّوں کو دودھ پلاتی ہیں، میں اُنھیں لے کر آتی ہوں اور یوں اپنی ماں اور بھائی کو آپس میں ملا دیا۔

حضرت موسیٰؑ کی زندگی میں عورت کا اہم اور متحرّک کردار ہر اہم مرحلے پر نظر آتا ہے۔ پہلے والدہ نے اُنھیں دریا میں ڈالا، پھر بہن نے رکھوالی کی، فرعون کی بیوی، حضرت آسیہ نے پرورش کی، پھر وہ جب فرعون کے محل سے ایک بے آب گیاہ صحرا میں پہنچے، تو بستی کے کنارے پر کنویں کے پاس دو لڑکیاں، جو اپنے بوڑھے والد اور اپنے گھر کی معاش کی ذمّے داری ادا کر رہی تھیں۔ وہاں حضرت موسیٰؑ نے اُن سے استفسار کیا کہ’’ تم یہاں کیوں موجود ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ جب پوری بستی والے اپنے مویشیوں کو پانی پلالیتے ہیں، تب آخر میں ہم اپنی بکریوں کو پانی پلاتی ہیں۔‘‘ 

حضرت موسیٰ ؑ نے آگے بڑھ کر اُن کی بکریوں کو پانی پلایا۔اس مقام پر عورت کا حیا سے چلنے کا ذکر ہے۔ اس کے اندر حیا کی صفت ہی اُسے معتبر بناتی ہے۔’’اور جب مدین کے پانی پر پہنچا، وہاں لوگوں کی ایک جماعت کو پانی پلاتے ہوئے پایا اور اُن سے دور دو عورتوں کو پایا، جو اپنے جانور روکے کھڑی تھیں، کہا’’ تمہارا کیا معاملہ ہے؟‘‘ بولیں’’ جب تک چرواہے نہیں ہٹ جاتے، ہم نہیں پلاتیں اور ہمارا باپ بڑی عُمر کا ہے۔‘‘(سورۃ القصص،23)۔لڑکیوں سے اُن کا والد جلد لَوٹنے کی وجہ معلوم کرتا ہے، تو وہ اُنھیں حضرت موسیٰؑ کے متعلق بتاتی ہیں۔حضرت موسیٰ ؑ کا ان لڑکیوں میں سے ایک سے نکاح ہوا اور پھر آپؑ نے دس سال اُن کی بکریاں چَرائیں۔ واپسی کے سفر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ صحرائے سینا میں تھے کہ کوہِ طور پر روشنی نظر آئی۔ آگ کے حصول کے لیے وہاں پہنچے، تو اللہ تعالیٰ نے اُنھیں نبوّت کے مرتبے پر فائز کر دیا۔

حضرت نوح ؑ، حضرت لوط ؑکی بیویاں اور بیٹیاں

قرآنِ کریم میں اُن کرداروں کو بھی واضح کیا گیا ہے، جس میں عورت کی غلط روش نے اُسے اللہ کے غضب کا مستحق ٹھہرایا۔ اُن میں حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی بیویاں شامل ہیں، جوکہ انبیاءؑ کے گھروں میں تھیں، مگر اُن کی رشتے داری اُن کے کام نہ آسکی۔’’ اللہ کافروں کے لیے ایک مثال بیان کرتا ہے، نوحؑ اور لوطؑ کی بیوی کی۔ وہ ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں۔ پھر ان دونوں نے ان سے خیانت کی سو وہ (نبی) اللہ کے غضب سے بچانے میں ان (بیویوں) کے کچھ بھی کام نہ آئے اور کہا جائے گا کہ دونوں دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔‘‘(سورۃ التحریم،10)۔ اسی طرح ابولہب کی بیوی کا تذکرہ ملتا ہے کہ وہ حضور نبی کریمﷺ کو تکلیف دیتی تھی، تو اللہ اس پر کتنا غضب ناک ہوا۔

قرآنِ کریم میں عورت کے تذکرے نے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کر دی کہ اللہ نے جس عورت کو اپنی صفتِ تخلیق عطا کرکے کائنات میں اہم مقام عطا کیا، جس سے نسلوں کی شناخت کی تمام تر ذمّے داری وابستہ کر دی، اُس کے متحرّک کردار ہی سے اقوام کی تعمیر ہوتی ہے۔اُس کی عزّت اور تحفّظ ہی سے قوموں کی بقا وابستہ ہے۔

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11