ھفتہ 04 مئی 2024

جادو بیاں خطیب

جادو بیاں خطیب

سید ثقلین علی نقوی

 

 

پاکستان کے سرکاری ٹی وی کی روایت ہے کہ’’ مجلسِ شبِ عاشور‘‘ لاہور مرکز اور’’ مجلسِ شامِ غریباں‘‘ کراچی مرکز سے نشر ہوتی ہے۔ان مجالس سے نام وَر اہلِ علم خطاب کرتے رہے ہیں۔یہ سلسلہ علّامہ رشید ترابی، علّامہ نصیر اجتہادی، علّامہ عقیل ترابی اور علّامہ عرفان حیدر عابدی جیسے نام وَر مقرّرین سے ہوتا ہوا طویل عرصے تک ایک ایسی ہستی پر رُکا رہا، جو نہایت ہی ہردِل عزیز اور تمام مسلمانوں کے لیے قابلِ احترام تھی۔ نیز، اُنھوں نے نشتر پارک کے مرکزی عشرۂ محرّم سے بھی برسوں خطاب کیا۔جی ہاں! دنیا اُس خطیب بے بدل کو علّامہ طالب جوہری کے نام سے جانتی ہے۔اُنھوں نے 27 اگست، 1939 ء کو بھارتی ریاست ،بہار کے شہر پٹنہ کے ایک علمی اور دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 

والد، مصطفیٰ جوہر معروف علمی شخصیت تھے، اس لیے آیاتِ قرآنی کی تلاوت بچپن میں لوریوں کی صُورت سُنیں۔گھر کی فضا دُرود و سلام سے گونجتی رہتی۔ یوں وہ سلام اور مناقب کی شکل میں اہلِ بیتِ اطہار کی فضیلتوں سے آشنا ہوتے رہے۔یہ گھر نہیں، ایک تہذیبی اور تعلیمی ادارہ تھا،اِس لیے علوم کی منتقلی کا سلسلہ گھر ہی سے شروع ہوا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ 1949ء میں جب یہ خاندان کراچی آیا، تو اُس وقت طالب جوہری کی عُمر محض دس سال تھی اور اُنھیں علّامہ اقبال کی نظم’’ شکوہ ،جوابِ شکوہ‘‘ اَزبر تھی۔ بعدازاں، اُنھیں اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے نجف اشرف بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔بچّے کے تیور بتارہے تھے کہ اگر علمی سفر استقامت کے ساتھ جاری رہا، تو وہ دنیائے علم و ادب میں بڑا نام، احترام اور مقام پائیں گے اور اُن کی آئندہ نسلیں اپنا تعارف اُن کی نسبت ہی سے کروایا کریں گی اور ایسا ہی ہوا۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی علمی شہرت و مقبولیت کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔نجف اشرف میں آیت اللہ العظمی سیّد ابو القاسم الخوئی جیسی نام وَر علمی شخصیت کے سامنے زانوئے تلمّذ طے کیا۔ دس سال تک اُن کی زیرِ نگرانی مختلف علوم حاصل کرتے رہے۔ آیت اللہ العظمی سیّد باقر الصدر سے بھی استفادہ کیا۔ اسی دَوران اسلام کے فلسفۂ اقتصادیات پر ایک کتاب تحریر کر ڈالی۔بعدازاں، ایم اے اسلامک اسٹیڈیز اور عربی فاضل کی اسناد بھی حاصل کیں۔ 

1965 ء میں نجف اشرف سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی واپس آئے۔ اُن کی طبیعت خطابت کی طرف مائل نہیں تھی، وہ تحقیقی میدان میں کام کرنا چاہتے تھے، مگر مواقع نہ ہونے اور پھر دوستوں کے اصرار پر والد کی پیروی میں خطابت کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس کے علاوہ، جامعہ امامیہ کے نگران کے طور پر بھی خدمات سَرانجام دینے لگے۔ پانچ برس تک گورنمنٹ کالج، ناظم آباد میں اسلامی علوم کے معلّم رہے، بعدازاں دو سال تک کراچی یونی وَرسٹی میں بھی پڑھاتے رہے، تاہم سیکیوریٹی مسائل کی وجہ سے تدریس کا سلسلہ مزید جاری نہ رہ سکا۔جب منبر پر جلوہ افروز ہوئے، تو اُنھوں نے علّامہ رشید ترابی، علّامہ نصیر اجتہادی، علّامہ مفتی جعفر حسین اور علّامہ عرفان حیدر عابدی کی یاد تازہ کردی، بلکہ منبر کی عزّت میں مزید اضافہ کیا۔ آپ شاعر اور فلسفی تھے۔ 

کئی کُتب تحریر کیں، جن میں تفسیر القرآن، احسن الحدیث اور حدیثِ کربلا اہم سمجھی جاتی ہیں۔ذکرِ اہلِ بیتؓ کے حوالے سے مقاتل اور ذکرِ معصوم نامی کتب کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اسی طرح، خلفائے اثناء عشر، علاماتِ ظہورِ مہدی اور عقلیاتِ معاصر بھی اُن کی اہم تصنیف ہیں۔ بڑی تعداد میں غزلیں، رباعیات، سلام، نظمیں اور قصیدے کہے۔1968 ء میں وجودِ باری تعالیٰ کے عنوان سے پہلا مرثیہ لکھا۔اب تک حرفِ نمو، پسِ آفاق اور شاخِ صدا کے نام سے شاعری کی3 کتب سامنے آ چُکی ہیں۔

علّامہ جوہری نے کئی سال تک پی ٹی وی پر مجلسِ شامِ غریباں سے خطاب کیا۔وہ اپنے مخصوص علمی اندازِ خطابت کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف تھے۔اُن کی مجالس معرفتِ قرآن کا ذریعہ ہوتیں کہ تقاریر کا اکثر حصّہ قرآنیات ہی پر مشتمل ہوتا۔ تقاریر کو آیاتِ قرآنی سے سجایا اور جب لکھنے بیٹھے، تو تفسیر قرآن لکھی، یوں اُن کا لکھنا اور بولنا، قرآن کے وسیلے سے بابرکت ہوگیا۔ پی ٹی وی پر’’ فہمِ قرآن‘‘ کے عنوان سے بھی پروگرامز کیے، جو عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ایک دنیا اُن کی قادرالکلامی، اندازِ بیاں، منطقی و علمی دلائل اور اسلامی رواداری کی معترف ہے۔اُن کی مجالس کا طرّۂ امتیاز یہ تھا کہ وہ اپنے عقائد سے مربوط دلائل کو قرآنِ پاک، احادیثِ مبارکہؐ اور مسلماتِ تاریخ سے پیش کرتے۔ کسی بھی موضوع پر گفتگو کا آغاز کرتے، تو کسی آیتِ قرآنی ہی کو بنیاد بناتے۔ 

قرآنِ حکیم سے دلیل لاتے۔ احادیثِ نبویؐ سے بات آگے بڑھاتے۔ آئمہ کرامؓ کے ارشادات کی روشنی سے معرفت کے چراغ جلاتے۔ قدرت نے لب و لہجے کو وہ تاثیر عطا کی تھی کہ بات سُننے والوں کے دِلوں میں اُترتی چلی جاتی۔ رُوح کو آسودگی ملتی اور ایمان تازہ ہوجاتا۔منبر سے مناظرے کا ایسا منفرد علمی قالب عطا کیا کہ دیگر مکاتبِ فکر کے علماء بھی اُن کی مجالس میں کھنچے چلے آتے۔پھر یہ کہ اُن مجالس کی ایک خاص بات وحدتِ اُمّت کا پیغام تھا۔وہ اختلافی مسائل بھی انتہائی شائستہ انداز میں بیان کرتے۔ کسی کی رائے رَد کرتے، تو اُس میں ذاتی رنجش کی بجائے علمی وجہ ہوتی ۔عملی طور پر بھی وحدتِ اُمّت کے لیے کوشاں تھے۔ معروف عالمِ دین، مولانا طارق جمیل ملاقات کے لیے اُن کے گھر آئے، جس سے معاشرے میں مثبت پیغام گیا۔

علّامہ جوہری نے کمال محنت سے علم کے سمندر سے ایسے نایاب موتی تلاش کیے، جن کی بدولت علومِ قرآن کو سمجھنے کے ساتھ، عوام و خواص کو قرآنِ کریم کی روشنی میں عقائد و دینی اصلاحات کے بارے میں رائے قائم کرنے میں آسانی رہی۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے دینی خدمات کے اعتراف میں اُنھیں’’ ستارۂ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ اُن کی شخصیت اور علمی خدمات پر پی ایچ ڈی سطح کی تحقیق ہوچُکی ہے۔ اس خاندان میںخطابت کا سلسلہ اب تیسری نسل میں منتقل ہوچُکا ہے۔ علّامہ طالب جوہری نے تین بیٹے اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑیں۔بڑے بیٹے، علّامہ ریاض جوہری معروف عالمِ دین ہیں۔ اُن سے چھوٹے، علّامہ اسد جوہری اور علّامہ امجد جوہری بھی بلند پایہ خطیب ہیں، جب کہ ایک بیٹی حسنہ جوہری معروف ذاکرہ ہیں، نرجس جوہری نوحہ خوانی کرتی ہیں۔ 

علّامہ طالب جوہری نے اسلامی علوم کے فروغ کے لیے نیو رضویہ سوسائٹی، کراچی میں ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا، جس کی لائبریری میں تقریباً 50 ہزار کتب موجود ہیں۔اُنھیں دو بار”اسلامی نظریاتی کاؤنسل“ کا رُکن بنایا گیا اور مجلسِ شوریٰ کے بھی رُکن رہے۔ علّامہ جوہری طویل عرصے سے صاحبِ فراش تھے۔ کئی بار اسپتال میں زیرِ علاج رہے اور صحت یاب ہو کر گھر لَوٹے۔ کچھ دن پہلے ایک بار پھر اسپتال میں داخل ہوئے، مگر اِس بار بیماری کا مقابلہ نہ کر سکے اور 22جون کو اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو داغِ مفارقت دے گئے اور اپنی ہی بنائی ہوئی لائبریری کے احاطے میں سپردِ خاک ہوئے۔

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11