جمعرات 02 مئی 2024

آج کی بہو کل کی ساس

آج کی بہو کل کی ساس

ایک عورت کے تین بیٹےتھے۔ تینوں بیٹے نہایت ہی فرمانبردار تھے۔ ماں کی ہر بات ان کے لئیے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ بیٹے کھانے پینے، اوڑھنےبچھونے تک ہر چیز میں ماں کی پسند کا خیال رکھتے تھے۔

ماں نے اپنی پسند کی لڑکیوں سے یکے بعد دیگرے تینوں بیٹوں کی شادیاں کروا دیں۔ تینوں بہوؤں کو ساس نے یہ بات باور کروا رکھی تھی کہ اس گھر میں حکومت اسکی ہے اور گھر میں وہی ہو گا جس میں میری منشا شامل ہو گی۔

لہذا تینوں بہوؤں نے انکی بات ماننے میں ہی عافیت جانی۔ وہ ہر کام کرنے سے پہلے اپنی ساس سے مشورہ کرتیں اگر ساس کی طرف سے اجازت نہ ملتی تو وہ بحث و تکرار کے بغیر ہی اس کام کو رد کر دیتی۔ انھیں اتنا بھی اختیار حاصل نہ تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کھانا تیار کر سکیں کوئی ڈش بنا سکیں۔  ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک کیا بنانا ہے کیا نہیں۔۔۔۔ یہ سب ساس ماں ہی طے کیا کرتی تھیں۔ 

یہاں تک کے گھر کے تمام لوگوں کے لباس اور دیگر ضروری اشیاء کی خریداری بھی وہ خود کرتی تھیں۔ اور ناپنسد ہونے کہ باوجود بھی سب کو وہی لباس پہننا پڑتا تھا۔ بیٹے جو کچھ کما کے لاتے وہ اپنی ماں کی ہتھیلی پر رکھ دیتے بہوؤں کو اگر کسی معاملہ میں ضرورت پڑے تو وہ اپنے شوہروں کے بجائے ساس سے مانگتیں۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ بہوؤں کے بچے بڑے ہونے کے باعث گھر میں ساس کی حکومت کم ہوتی رہی اور بلآخر  ماں کی سلطنت تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اور تینوں ریاستوں کا مطلب کہ تینوں گھروں میں اب بہوؤں کی حکومتیں قائم ہو گئیں۔

اور ماضی میں خواہشات کی تشنگی میں پسی بہوؤں نے بھی وہی طرزِ عمل اپنا لیا جو کچھ عرصہ پہلے انکی ساس کا تھا اور جس نظام سے وہ بہت تنگ تھی۔ مگر اپنا اقتدار آتے ہی انھیں وہ سب ٹھیک لگنے گا اچانک سے فیصلوں کا اختیار اور پاور نے انھیں مظلوم سے ظالم بنا دیا۔

ساس ایک بہو کی باتوں سے تنگ آ کر دوسری بہو کے گھر جاتی مگر وہاں بھی حالات اپنے معیار کے مطابق نہ پاتی کیوں کہ وہ خود حکومت کی عادی تھی اور بیٹوں کے گھروں میں قائم بہوؤں کی حکومت اور احکامات کی پیروی کو توہین سمجھتی تھی۔ اسی وجہ سے وہ کسی ایک گھر ایک آدھ ماہ سے زیادہ عرصہ نہ نکال پاتی۔

کرتے کراتے اب وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ آئی کہ بستر کی ہو کے رہ گئی۔ اب وہ تو ایک گھر میں رہنا چاہتی تھی مگر کوئی بھی بہو انکو رکھنے کو تیار نہ تھی۔ اپنے شوہر کے مجبور کرنے پر رکھ لیتی اور چند دنوں میں اپنے شوہر کو باقی بیٹوں کے فرائض بتا کر ساس کو چلتا کر دیتی۔

ساس دل ہی دل میں انھیں کوستی ،بد دعائیں دیتی کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا انکی حکومت کے دن جو گزر گئے تھے۔

 ایک دن ساس نے اپنی تینوں بہوؤں کو اپنے پاس بلوایا اور کہا بیٹا میں جانتی ہوں تم جو کچھ کر رہی ہو میرے ساتھ۔۔۔۔ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں یہ مکافاتِ عمل ہے ۔ جیسا کیا تھا ویسا بھگت رہی ہوں۔

 مگر یاد رکھنا ایسا صرف میرے ساتھ نہیں ہوا میری ساس نے بھی بہت برے حالات دیکھے تھے۔ انھوں نے بھی ہم بہوؤں کو زرخرید غلام بنا کر رکھا تھا اور جب وہ بوڑھی ہوئی تو ہم انھیں پانی تک کا نہ ہوچھتی تھی پورا پورا دن بھوک پیاس میں ہی گزر جایا کرتا تھا جب ہمار خاوند گھروں کو آئیں تو ان کے سامنے خود فرمانبردار ظاہر کرنے کو دیکھ بھال کر دیتی تھی۔

 یہی نہیں جب ان کا انتقال ہوا تو ہم ساری بہوؤں کے آنس تک نہ نکل رہے تھے رشہ داروں عزیزوں کو دکھانے کے لیئے بہت مشکل سے زور زور سے رونے کی ادکاری کی مگر آنکھیں ذرہ بھی نم نہ تھی۔بہوتی بھی کیسے دل میں ان کے مرنے کا دکھ جو نہیں تھا۔

میں نے بھی وہی اپنے پر ہونے والے مظالم کا بدلہ تم سے لیا اور ویسا ہی سلوک کیا جو میری ساس کا مجھ سے تھا۔ اور شاید یہی سلوک ان کے ساتھ ان کی ساس نے روا رکھا ہو گا۔ 

اب میری بھی حالت تم تینوں کے سامنے ہے اگر تم اپنی زندگی آرام سے گزارنا اور ہنسی خوشی مرنا چاہتی ہو تو اپنے گھر پر اپنی اولادوں پر اپنے اختیارات کا ، ماں ہونے کا ساس ہونے کا ناجائز استمال نہ کرنا۔۔۔۔

 ساس نے ابدی نیند سونے سے اور ہمشہ کے لیئے اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے بہوؤں کی آنکھیں کھول دی تھیں۔

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11