کھودا پہاڑ نکلا چوہا
انہی باتوں کی وجہ سے اس کاپڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا۔ آخر اس کا ہوگا کیا“ امی نے متفکر ہوکر ابو سے کہا: اسے سمجھا سمجھا کرتھک گئے ہیں لیکن اس کے کانوں پر جیسے جوں ہی نہیں رینگتی۔ آئے دن محلے سے شکایتیں آتی رہتی ہیں۔
بس اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اسے بورڈنگ میں داخل کرا دوں گا، وہاں پابندرہے گا تو جاسوسی کاشوق ختم ہوجائے گا۔ ابو غصے سے بولتے چلے گئے۔ بالآخر فاران کو بورڈنگ ہاؤس میں داخل کروایا گیا۔
یہاں صبح کے ناشتے کے لیے رات میں ہی ہر بچے کا بن ڈبل روٹی منگوالیا جاتا تھا کیونکہ بیکری صبح جلدی نہیں کھلتی تھی۔
دو چار دن سے بورڈنگ ہاؤس میں عجیب بات محسوس کی گئی کہ روزانہ ایک بچے کا بن غائب ہوجاتا۔فاران کی جس جاسوسی اس موقع پر بھڑک اٹھی۔ رات کو جب سب سوگئے تو وہ اپنے بستر پر بیٹھے کمرے میں چاروں طرف نظریں دواڑنے لگا۔ اچانک اس نے ایسی عجیب بات دیکھی کہ بے اختیار لیٹ کر چادر سر تک تان لی اور کانپنے لگا۔
اس نے ایک جھٹکے سے آہٹ کی جانب دیکھا تو اسے اپنے نیچے سے بستر نکلتا محسوس ہوا۔ ایک اور بچے کابن خود بخود کھسک رہاتھا۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے کھسکتا دیکھ رہاتھا۔اتنا بڑا گول بن زمین پر کھسک نہیں رہاتھا۔ بلکہ تھوڑا سا اوپر کو اٹھ کرفضا میں اڑرہا تھا۔
وہ تھر تھر کانپنے لگے اور پھر اس نے ذرا غور سے دیکھا تو اسے بن کے نیچے ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی۔اس نے کاپنتے ہوئے تھوڑا جھک کر غورسے دیکھا تو اس کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ اس کی ہنسی سن کر باقی بچے بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔
کیا ہوا؟ ایک نے پوچھا، ارے کیوں ہنس رہے ہو اتنی رات کو ؟ ایک اور بولا۔ فاران سب باتوں سے بے نیاز، بس اس بن کو دیکھے جا رہاتھا جواب کافی دور نکل چکا تھا۔ پھر باقی بچوں کی نگاہیں بھی اس کی نگاہوں کی سیدھ میں گئیں۔سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔
Facebook Comments