ھفتہ 18 مئی 2024

خواب اور نصیحت

خواب اور نصیحت
عشرت جہاں
”بھائی ! اچھی طرح سوچ لیں ۔اتنا بڑا قدم اُٹھانا کوئی آسان بات نہیں ہے ۔بہت بڑی ذمے داری ہے اور پھر سارہ کے مزاج کو آپ سے بڑھ کر کون سمجھ سکتا ہے ۔یہ اپنے برابر کسی اور کو برداشت کرلے گی ؟“
اپنا نام سن کر سارہ نے بے اختیار گردن گھمائی ،امی اور نائلہ پھپو سرجوڑے بیٹھی تھیں ۔
”نائلہ! میں نے سب کچھ سوچ سمجھ کر ہی تم سے بات کی ہے ۔کئی دن سے میں اسی مسئلے پر سوچ رہی تھی ،لیکن اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔“
سارہ سر جھٹک کر گڑ یا کے گھر کو ترتیب سے سجانے لگی ۔
”ٹھیک ہے ،پھر میں ثاقب بھائی سے ضرور بات کروں گی۔
ان شاء اللہ وہ ہماری بات ضرور مان جائیں گے ۔“سارہ کی پھوپھی نائلہ نے اپنے تعاون کا یقین دلایا اور امی خوش ہو گئیں ۔
نائلہ نے کہا:”مجھے یقین تھا،تم ضرور میرا ساتھ دو گی ۔“
اور پھر تیسرے دن سارہ کے امی ابو اور پھپو ،آمنہ کو اپنے گھر لے آئے ۔
”ساری بیٹی ! اِدھر آؤ !”امی نے اسے بلایا ۔آواز میں مٹھاس تھی ۔
”سارہ بیٹی ! یہ تمھاری بہن آمنہ ہے ۔اب یہ ہمارے ساتھ اسی گھر میں رہے گی۔“امی نے سارہ کو پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔
”یہ ․․․․․․․․․یہ کالی کلوٹی میری بہن کیسے ہو گئی!”سارہ نے یکدم کھڑے ہو کر کہا تو اس کی پھپو اور امی ایک دوسرے کا منھ تکنے لگیں ،جب کہ آمنہ کے چہرے پر کسی قسم کے کوئی تاثر ات نہ تھے،وہ تو بس سارہ کو دیکھے جارہی تھیں ۔
سارہ منھ چڑا کر وہاں سے اُٹھ گئی۔امی ،پھپو کے سامنے شرمندہ سی ہو گئیں ۔
”کوئی بات نہیں ،میں جلد ہی اسے منالوں گی۔بس ذرا ضدی طبیعت کی ہے ۔“چلتے چلتے سارہ نے امی کی آواز سنی۔
رات کو امی ،نے آمنہ کو سارہ کے کمرے میں لے آئیں ۔
آمنہ سات سال کی ایک معصوم صورت بچی تھی ۔سارہ اس سے دوسال بڑی تھی ۔اس نے جب بھی آمنہ کا جائزہ لیا،اس کے چہرے پر بے چار گی سی چھائی نظر آئی ۔اسے بستر پر لٹا کر امی نے لحاف درست کیا اور پھر جاتے جاتے سارہ کا لحاف درست کرتے ہوئے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا،لیکن سارہ سوتی بن گئی ۔
دو دن گزرے ،پھر چار دن اور پھر پورا ہفتہ گز ر گیا۔سارہ کی جھنجلا ہٹ بڑھتی جارہی تھی۔امی ،آمنہ کو اپنے ساتھ باتوں میں لگائے رکھتیں ۔آمنہ چھوٹے چھوٹے کام کرنے لگی تھی ۔اسے گھر کی ہر چیز کا پتا چل چکا تھا۔جب سارہ اسکول سے گھر آتی تو آمنہ اس کا بیگ اُٹھا کر مقررہ جگہ پر رکھتی،پھر اس کے بے ترتیب پڑے جوتے ریک میں لگا دیتی ۔
سارہ کو اسکول کے لیے تیار ہوتے ہوئے وہ شوق سے دیکھتی ۔
”سارہ کے پانچویں کے امتحان ہوجائیں تو آمنہ کو بھی تیسری میں داخل کروا دیں گے ۔“ایک دن سارہ کی امی نے شوہر سے کہا اور وہ وہاں میں سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئے ۔
یہ سنا تو سارہ جل کر رہ گئی:”ہونہہ،یہ چڑیل میرے ساتھ اسکول جائے گی۔“آمنہ کے ابو کسی بیماری میں مبتلا ہو کر سال بھر پہلے چل بسے تھے اور چند دن پہلے اس کی امی بھی فوت ہو گئی تھیں ۔یہ چار بہن بھائی تھے،جنھیں رشتے داروں نے آپس میں بانٹ لیا تھا ۔
آمنہ کو سارہ کی امی لے آئی تھیں ۔سارہ سوچتی رہتی کہ اگر وہ یتیم تھی تو اس میں میرا کیا قصور ! اس چڑیل نے آکر میری امی پر قبضہ کر لیا تھا ۔امی کی محبت میں حصہ دار بن گئی تھی ۔اس منفی سوچ کے باعث سارہ کو آمنہ سے چِڑ ہو گئی تھی۔
”نالائق !احمق ہو تم ۔“کہتے کے ساتھ ہی ایک تما چاسارہ نے آمنہ کے منھ پر جڑ دیا۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور چپکے چپکے رونے لگی۔تما چے کی آواز باور چی خانے تک پہنچی تھی ،اس لیے امی فوراََ ہی نکل آئیں ۔
”میں اسے پڑھا رہی ہوں ،مگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ۔
“سارہ نے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے بہانہ کیا۔
امی نے سسکیاں لیتی آمنہ کو خود سے چمٹا لیا اور سارہ پر نظریں گاڑدیں ۔
”میری نیکی یوں ضائع نہ کرو سارہ !”سارہ کی طرف دیکھ کر امی دکھ سے بولیں اور سارہ پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔
آمنہ کے لیے ان کی حمایت پر سارہ کاخون کھول رہا تھا ۔وہ غصے میں بستر پر جاگری اور تکیے میں منھ چھپا لیا۔
سارہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ لوگوں کا بے پنا ہ ہجوم تھا ۔ہر طرف انسان ہی انسان تھے ،مگر سب اجنبی تھے۔نہ سارہ کو کسی کی پہچان تھی اور نہ کسی کو سارہ کی۔
وہ ایک ایک کامنھ دیکھ رہی تھی کہ کوئی اپنا نظر آئے ،لیکن کسی کو سارہ سے کوئی غرض نہ تھی۔وہ گھبرانے لگی ۔اسی ہجوم میں سارہ ،امی ابو کی تلاش کرنے لگی۔کبھی کسی کے پیچھے بھاگتی اور کبھی کسی کو آوا ز دیتی ۔قریب جا کر دیکھتی تو نہ اس کی امی ہوتیں نہ ابو۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سارہ کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی ۔سب کے ہوتے ہوئے بھی تنہا ہونے کا احساس پریشان کررہاتھا۔
”امی ․․․․․امی ! کہا ں ہیں آپ ؟ابو جی کہاں ہیں ؟“سارہ روتے ہوئے چِلا نے لگی:”امی ․․․․ابو․․․․․․“
”کیا ہوا میری بچی ! سارہ بیٹی ! ہم سب یہیں ہیں ،تمھارے پاس ۔
“امی ابو پاس کھڑے تھے ۔
”نیند میں ڈر گئی ہے ۔“امی نے اسے اپنی گود میں اُٹھا تے ہوئے کہا۔
سارہ خواب کے اثر سے باہر آئی تو اس نے آمنہ کو اپنے بستر پر بیٹھے پایا۔وہ سارہ کو ہمدردی سے دیکھ رہی تھی ،جیسے خواب میں ڈری ہوئی سارہ پر اسے ترس آرہا ہو،آمنہ خاموش تھی،مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سارہ کو تسلی دینا چا ہتی ہو ۔
سارہ نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا اور محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔اپنوں سے بچھڑنے کا غم کیا ہوتا ہے ،”اس خواب نے اسے سمجھا دیا تھا ۔

Facebook Comments

پیاری بیوی
2021-10-11